نصف صدی تک ساتھ نبھانے والے جوڑے کا کورونا کے باعث ایک ساتھ انتقال کرگیا

نیو یارک (ویب ڈیسک) شادی کے بعد شوہر اور بیوی زندگی بھر کے ساتھی بن جاتے ہیں اور محبت ہو تو موت ہی ان کو جدا کرپاتی ہے، مگر ایک جوڑے نے ‘اٹوٹ بندھن’ کے الفاظ کو نئے معنی پہنا دیئے۔

نصف صدی تک (51 سال) شادی کے بندھن میں بندھے رہنے والے ایڈرین اور اسٹیورٹ بیکر نئے نوول کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کے نتیجے میں 6 منٹ کے وقفے سے چل بسے۔

ریاست فلوریڈا کے علاقے بوائینٹن بیچ کا رہائشی یہ جوڑا چند ہفتے پہلے تک مکمل صحت مند تھا۔

سی این این کی رپورٹ کے مطابق 74 سالہ اسٹیورٹ بیکر اور 72 سالہ ایڈرین بیکر کی شادی کو 51 سال سے زائد عرصہ گزر گیا تھا اور وہ کسی خاص بیماری کے شکار بھی نہیں تھے، تاہم مارچ کے وسط میں انہیں بیماری کا احساس ہوا۔

ان کے بیٹے بڈی بیکر نے بتایا کہ کووڈ 19 سے ہونے والی پیچیدگیوں کے نتیجے میں ان دونوں کا انتقال آگے پیچھے 6 منٹ کے وقفے سے ہوا۔

بڈی بیکر امریکا کی نیشنل فٹبال لیگ کے ایجنٹ ہیں اور والدین سے محرومی پر انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کی ہولناکی کو بیان کرتے ہوئے لوگوں پر زور دیا کہ وہ سماجی دوری اور گھروں میں رہنے کے حکومتی فیصلوں پر عمل کریں۔

ان کا کہنا تھا ‘جب تک وائرس آپ کو یا آپ کے کسی پیارے کو نہیں چھوتا یا آپ کوئی کہانی نہیں سنتے، آپ اسے اہمیت نہیں دیتے، مگر مجھے توقع ہے کہ میرے والدین کی ہلاکت رائیگاں نہیں جائے گی’۔

انہوں نے بتایا کہ کس طرح ان کے والدین اس وائرس کا شکار ہوکر چل بسے۔

3 ہفتے قبل اسٹیورٹ اور ایڈرین بیکر ڈاکٹر کے پاس طبیعت کی خرابی کی شکایت لے کر گئے، جن کو گھر واپس بھیج دیا گیا۔

چند دن میں ان کی حالت میں بہتری نہیں آئی تو ڈاکٹر نے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا، جہاں سے انہیں گھر جاکر حالت بہترہونے تک قرنطینہ کا مشورہ دیا گیا۔

بڈی بیکر کے مطابق ‘یہ دنیا بند ہونے سے پہلے کی بات تھی، تو کوئی یہ خیال بھی نہیں کرپایا کہ یہ جان لیوا معاملہ ہے’۔

بڈی بیکر کا کہنا تھا کہ وہ اپنے والدین سے مسلسل رابطے میں تھے مگر ان کی حالت میں بہتری نہیں آئی، ایک دن کچھ بہتری محسوس ہوتی تو اگلے دن پھر بدترین ہوجاتی۔

چند دن بعد 19 مارچ کو اس جوڑے کو پھر ہسپتال جانے کا کہا گیا، جہاں بخار اور دمہ کے شکار اسٹیورٹ بیکر کو ہسپتال میں داخل کرلیا گیا، جبکہ ان کی بیوی کو بخار نہیں تھا، تو انہیں داخل نہیں کیا گیا۔

اس جوڑے کا خاندان پرامید تھا کہ ان کی حالت میں بہتری آجائے گی مگر 48 گھنٹے بعد اسٹیورٹ کو آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا، جہاں ایسا لگا کہ حالات بہتر ہورہے ہیں۔

اس وقت بڈی بیکر کی والدہ گھر پر تھیں اور بخار یا دیگر علامات سامنے نہیں آئی تھیں، مگر شوہر کی حالت نے ان کو ذہنی طور پر بری طرح متاثر کیا۔

بڈی بیکر کے مطابق ‘ہمیں اچانک خیال آیا کہ میرے والد ان سے گزشتہ 5 دن سے دور ہیں، جو کہ دونوں کی زندگی کا انتہائی غیرمعمولی واقعہ تھا’۔

بڈی بیکر اور ان کی بہن دن میں کئی بار اپنی ماں کے پاس جاتے، جس کے دوران وہ گیراج کے باہر بیٹھتے جبکہ وہ اندر ہوتیں، 24 مارچ کو ہسپتال سے کال آئی کہ والد میں کووڈ 19 کی تشخیص ہوئی ہے اور ایسا نہیں لگتا کہ وہ سنبھل پائیں گے۔

اس کال نے خاندان کو ہلا دیا، مگر وہ ماں کو اس خبر سے پریشان نہیں کرنا چاہتے تھے، مگر انہیں احتیاطی تدبیر کے طور پر ہسپتال لے جانے کا فیصلہ کیا۔

وہ ایڈرین بیکر کا ٹیسٹ کرانا چاہتے تھے حالانکہ ان میں بخار یا دیگر علامات نظر نہیں آئی تھیں اور بظاہر ٹھیک ٹھاک تھیں۔

ہسپتال میں ان کے معائنے کے 45 منٹ کے بعد ہی ڈاکٹر نے بڈی بیکر کو بتایا کہ ایڈرین بیکر میں آکسیجن کی سطح بہت زیادہ کم ہے اور ان کے بچنے کا امکان بھی مشکل ہے۔

ایڈرین کو اسی رات آئی سی یو میں منتقل کیا گیا مگر ان کی سانس لینے کی صلاحیت بہت بری طرح متاثر ہوچکی تھی، جبکہ مریضوں کا ہجوم اتنا زیادہ ہوگیا تھا کہ خاندان کو جب بھی اپنے والدین کی حالت کے بارے میں معلومات لینی ہوتی، تو مختلف ڈاکٹر ملتے۔

28 مارچ کو خاندان کو مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے والدین کو ہوسپک کیئر میں منتقل کردیں اور اس رات یہ خاندان اس امید کے ساتھ سونے لیٹا کہ رات بھر میں کوئی کرشمہ ہوجائے گا اور حالت بہتر ہوجائے گی۔

مگر اگلی صبح ان کی حالت بہت زیادہ خراب ہوگئی اور بڈی بیکر نے انہیں ایک ہی کمرے میں منتقل کرنے کی درخواست کی، اور وینٹی لیٹرز کو ہٹا دیا گیا، جہاں چند منٹ کے وقفے کے اندر وہ چل بسے۔

بڈی بیکر کے مطابق ‘توقع پے کہ لوگ ہماری کہانی کو سنیں گے اور ان میں درست قدم کے لیے حوصلہ افزائی ہوگی، ایسا کرکے وہ نہ صرف خود اور اپنے پیاروں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں، بلکہ اس سے ہوسکتا ہے کہ کسی اور خاندان کی مدد مل سکے اور وہ اس تکلیف اور غم سے بچ جائے، جس کا سامنا مجھے ، میری بہن اور ہمارے بچوں سمیت خاندان کے تمام افراد کو ہورہا ہے’۔

اپنا تبصرہ بھیجیں