جہانگیر ترین، شریف خاندان، چوہدری برادران اور عمر شہریار چینی بحران کے ذمے دار قرار

اسلام آباد (ویب ڈیسک) حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ منظر عام پر لے آئی جس کے تحت جہانگیر ترین، مونس الٰہی، اومنی گروپ اور عمر شہریار چینی بحران کے ذمے دار قرار دیے گئے ہیں۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق مبینہ طور پر اہم کاروباری شخصیت جہانگیر ترین، سابق حکمران شریف خاندان، گجرات کے چوہدری برادران، وفاقی وزیر اسد عمر، پنجاب اور سندھ کی حکومتوں نے ’فراڈ اور ہیرا پھیری کی ہے‘۔

فرانزک آڈٹ رپورٹ میں چینی اسیکنڈل میں ملوث افراد کے خلاف فوجداری مقدمات درج کرنے اور ریکوری کرنےکی سفارش کی گئی ہے جبکہ رپورٹ میں تجویز دی گئی ہے کہ ریکوری کی رقم گنے کے متاثرہ کسانوں میں تقسیم کردی جائے۔

اس حوالے سے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر کہتے ہیں کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے جن کی غفلت کے باعث بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے، عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے وزیر اطلاعات سینیٹر سبلی فراز کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملکی تاریخ کا آج بہت اہم دن ہے، پہلے کسی حکومت کی اتنی ہمت نہیں تھی کہ ایسا کمیشن بنائے۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ وزیراعظم اور کابینہ نے انکوائری رپورٹ کو پبلک کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس تاریخ ساز دن پر ہمیں سراہنا چاہیے، ہم صحیح سمت میں بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے، جن کی غفلت کے باعث چینی بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی، کمیشن نے کیسز نیب، وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے جب کہ کابینہ نے ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی ہے اور وزیراعظم نے مجھے اس کی ذمہ داری سونپی ہے۔

مشیر برائے احتساب کا کہنا تھا کہ عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی، ابھی کسی کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) پر نہیں ڈالا گیا، کوئی تحقیقاتی ادارہ کہے گا تو کابینہ نام ای سی ایل میں ڈالنے پر غور کرے گی۔

رپورٹ میں لکھا گیا ہےکہ شوگرملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتے ہیں
شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ انکوائری کمیٹی نے مفصل رپورٹ پیش کی ہے، رپورٹ میں لکھا گیا ہےکہ شوگر ملز کسانوں کو امدادی قیمت سے کم قیمت دیتے ہیں اور کسانوں کو گنے کے وزن میں 15 فیصد سے زیادہ کٹوتی کی جاتی ہے، کچی پرچی اور کمیشن ایجنٹ کے ذریعے کم قیمت پر کسانوں سےگنا خریدا جاتا ہے اور اس کی لاگت زیادہ دکھائی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا اور شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک مقدار کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں جب کہ چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد اضافہ ہوا، 2018-2017 میں شوگر ملز نے چینی کی فی کلو لاگت 51 روپے رکھی جب کہ اس عرصے میں فی کلو لاگت 38 روپے تھی۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ 2019-2018 میں اصل لاگت میں ساڑھے 12 روپے فی کلو کا فرق پایا گیا جب کہ 20-2019 میں چینی کی فی کلو لاگت میں 16 روپے کا فرق پایا گیا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان اَن آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے ہیں۔

جہانگیر ترین گروپ کی شوگر ملز ڈبل بلنگ اور اوور انوائسنگ میں ملوث نکلی ہیں۔ مشیر برائے احتساب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم ہمیشہ کہتے ہیں کاروبار کرنے والا سیاست میں بھی کاروبار کرے گا، وزیراعظم کی یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چینی کی قیمت میں ایک روپیہ اضافہ کر کے 5.2 ارب روپے منافع کمایا جاتا ہے، پاکستان کی برآمد اور افغانستان کے درآمد ڈیٹا میں فرق آیا ہے، ایک ٹرک 15 سے 20 ٹن لے جا سکتا ہے، یہاں ایک ٹرک پر 70 سے 80 ٹن چینی افغانستان گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف فیملی کی کمپنی میں ڈبل رپورٹنگ ثابت ہوئی، 2018۔2017 میں انہوں نے ایک اعشاریہ 3 ارب روپے اضافی کمائے جب کہ19۔2018 میں انہوں نے 78 کروڑ روپے اضافی کمائے، جب کہ جہانگیر ترین گروپ کی شوگر ملز ڈبل بلنگ اور اوور انوائسنگ میں ملوث نکلی ہیں اور کارپوریٹ فراڈ میں ملوث نکلی ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ خسرو بختیار کے بھائی کی شوگر مل ہے ان کی اپنی نہیں، خسرو بختیار کے بھائی کے پاس کوئی سیاسی عہدہ نہیں، خسرو بختیار کو عہدہ چھوڑنے کا نہیں کہ سکتے، جو براہ راست ملوث ہوگا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ فرانزک آڈٹ میں شارٹ لسٹ کی گئِی ملز میں پہلی مل الائنس ہے جو ‘آر وائی کے’گروپ کی ملکیت ہے، آر وائی کےگروپ میں مونس الٰہی کے 34 فیصد شیئرز ہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ وزیراعظم کا فیصلہ ہے کہ کمیشن کی رپورٹ من وعن عوام کے سامنے رکھی جائے، وزیر اعظم نے کہا ہے کہ 9 کے بعد اب باقی شوگز ملز کا بھی فرانزک ہونا چاہیے، وزیراعظم نے عید کے فوراً بعد سفارشات طلب کی ہیں اس کیلئے میری ذمہ داری لگائی گئی،آٹے کی مد میں تینوں رپورٹ پی آئی ڈی کی ویب سائٹس پر موجود ہیں، آٹا اور چینی کی مدد میں چوری پر کیسز بھی بن رہے ہیں۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ سندھ حکومت نے 9.3 ارب روپے کی سبسڈی دی، کمیشن نے لکھ دیا ہے کہ اومنی گروپ کو فائدہ دینے کیلئے سبسڈی دی گئی، 20-2019 میں وفاق نے کوئی سبسڈی نہیں دی، 2018میں شاہد خاقان عباسی کے دور میں سبسڈی دی گئی۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ گزشتہ پانچ سال میں شوگر ملز کو 29 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ دواؤں والے معاملے میں انکوائری مجھے سونپی گئی تھی، انکوائری کررہا ہوں کہ کیا جن دواؤں کی اجازت دی گئی وہی درآمد کی گئیں۔

اب غیر منتخب کابینہ ارکان بھی اپنے اثاثے ڈکلیئر کریں گے، شبلی فراز
اس موقع پر وزیر اطلات شبلی فراز کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی زیر صدارت کابینہ کے خصوصی اجلاس ہوا، حکومت کا منشور تبدیلی لانا اور مافیا کو بے نقاب کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ غیر منتخب کابینہ ارکان بھی اپنے اثاثے ڈیکلیئر کریں گے، وزیراعظم نے غیر منتخب مشیران اور معاونین کے اثاثے بھی ظاہر کرنے کی ہدایت دی ہے۔

خیال رہے کہ ملک میں گذشہ عرصے کے دوران چینی بحران کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر کی گئی تحقیقات میں وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے انکشاف کیا تھا کہ ملک میں چینی بحران کا سب سے زیادہ فائدہ حکمران جماعت کے اہم رہنما جہانگیر ترین نے اٹھایا، دوسرے نمبر پر وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی اور تیسرے نمبر پر حکمران اتحاد میں شامل مونس الٰہی کی کمپنیوں نے فائدہ اٹھایا۔

اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ اعلیٰ سطح کے کمیشن کی جانب سے مفصل فرانزک آڈٹ کا انتظار کررہے ہیں جو 25 اپریل تک کرلیا جائے گا تاہم بعد ازاں کمیشن کو رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید 3 ہفتوں کی مہلت دی گئی تھی۔

آج شوگر انکوائری کمیشن کے سربراہ اور ڈی جی ایف آئی اے واجد ضیاء نے کمیشن کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی، ذرائع کے مطابق شوگر کمیشن کی حتمی رپورٹ 346 صفحات پر مشتمل ہے جس شوگر ملز مالکان کے بیانات بھی لگائے گئے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں