اقوام متحدہ کا امریکا، طالبان امن معاہدے پر نئے شکوک کا اظہار

واشنگٹن (ڈیلی اردو/نیوز ایجنسی) اقوام متحدہ کے رکن ملکوں کی انٹیلی جنس اطلاعات پر مبنی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے طالبان قیادت اپنے پیرو کار جنگجوؤں کو مسلسل یہی تلقین کر رہی ہے کہ پر اعتماد رہو، ہم اقتدار طاقت کے زور پر حاصل کر سکتے ہیں۔

اقوام متحدہ کی عائد کردہ پابندیوں سے متعلق غیر جانبدار مبصرین کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کی امریکا کے ساتھ ڈیل کے باوجود طالبان اور دہشت گرد تنظیم القاعدہ بالخصوص حقانی نیٹ ورک کے مابین رابطے برقرار ہیں۔

نیو یارک میں عالمی ادارے کے صدر دفاتر سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق امریکا نے افغانستان میں طالبان عسکریت پسندوں کی قیادت کے ساتھ جو معاہدہ کیا تھا، اس کے بعد واشنگٹن کو توقع تھی کہ مستقبل میں طالبان عسکریت پسندوں اور دہشت گرد نیٹ ورک القاعدہ کے مابین رابطے ختم ہو جائیں گے۔

تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں پر عمل درآمد پر نظر رکھنے والے غیر جانبدار مبصرین کی تیار کردہ ایک تازہ رپورٹ کے مطابق، جو پیر یکم جون کو پیش کی گئی، افغان طالبان اور القاعدہ، خاص کر القاعدہ کے ذیلی دھڑے حقانی نیٹ ورک کے مابین رابطے اب بھی موجود ہیں.۔

برطانوی خبر رساں ادارے سی این این کے مطابق اقوام متحدہ کی مرتب کردہ رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ رکن ممالک شکوک و شبہات کا اظہار کر رہے ہیں کہ طالبان امریکہ کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کی پاسداری کرنے کی نیت نہیں رکھتے۔ اس معاہدے کا مقصد تقریباً دو عشروں پر محیط افغانستان میں جنگ کا خاتمہ اور مستقل امن کا قیام ہے۔

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی پابندیوں کی نگرانی کرنے والی ٹیم نے نہ صرف حالیہ دنوں میں طالبان کے افغان فورسز پر حملوں کا ذکر کیا، بلکہ ان کے اندرونی پیغامات کا بھی حوالہ دیا، جن میں سخت گیر رویہ قائم رکھنے کی تلقین کی جاتی رہی ہے۔ طالبان کو اعتماد ہے کہ وہ طاقت کے بل پر اقتدار حاصل کر سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق یہ خطرہ موجود ہے کہ وہ بین الافغان مذاکرات کو کسی نہ کسی وجہ سے اس وقت تک زیر التوا رکھیں گے جب تک بین الاقوامی فوجوں کا افغانستان سے انخلا نہیں ہو جاتا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغان فورسز کی فضائی حفاظت امریکہ کی زیر قیادت بین الاقوامی فورسز کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے طالبان فورسز بھرپور طور پر سرگرم نہیں ہیں۔ اسی لیے اچانک اور غیر متوقع انخلا کئی صوبوں کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ اس وقت 21 اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے، جب کہ افغانستان کے 60 فیصد حصے کے حصول کے لیے جد و جہد جاری ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کی تعداد پچپن ہزار سے پچاسی ہزار کے درمیان ہے اور پندرہ ہزار سے زیادہ سہولت کار ہیں۔ نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم نے یہ بھی لکھا ہے کہ طالبان 30 کروڑ سے لے کر ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ تک کما رہے ہیں۔ ان کی اس آمدنی کے مختلف ذرائع ہیں، جن میں مقامی سطح پر ٹیکس اور منشیات کی ناجائز تجارت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ طالبان کے القاعدہ کے ساتھ تعلقات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

ایک رکن ملک نے اطلاع دی ہے کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے دوران بھی طالبان کا القاعدہ کے لیڈروں سے رابطہ رہا اور یہ ان سے ہدایات لیتے رہے۔

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے باوجود امریکہ کے اعلی عہدے دار یہ توقع رکھتے ہیں کہ طالبان معاہدے پر قائم رہیں گے اور یہ کہ طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائیں گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں