کوئٹہ: شیعہ ہزارہ ٹارگٹ کلنگ کیخلاف گذشتہ 10 گھنٹوں سے جاری احتجاجی دھرنا ختم

اسلام آباد (ش ح ط) گورنر ہاؤس بلوچستان کے سامنے رات گئے سے جاری ہزارہ برادری کا دھرنا مقامی انتظامیہ سے ملاقات اور قاتلوں کی گرفتاری کے وعدے کے ساتھ ختم کر دیا گیا ہے۔

بلوچستان کے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ میں شیعہ ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہزارہ برادری نے رات گئے علمدار روڑ پر دھرنا دینا شروع کیا جو بعد میں گورنر ہاؤس کے سامنے منتقل کی گیا جہاں 16 سالہ نوجوان اسماعیل ہزارہ کی میت بھی احتجاج کے طور پر رکھی گئی تھی۔ دھرنے میں سینکڑوں مظاہرین نے شرکت کی جو کل ہلاک ہونے والے 16 سالہ نوجوان اسماعیل کے قاتلوں کی فورا گرفتاری کے ساتھ ساتھ، جے آئی ٹی کی تشکیل اور پہاڑ کی چوٹی پر پولیس اور ایف سی چیک پوسٹس کا مطالبہ کر رہے تھے تاکہ پہاڑ کے دامن میں واقع آبادی کو تحفظ حاصل ہو۔

مقامی انتظامیہ جنمیں ڈی سی کوئٹہ اور ایس ایس پی اپریشن طارق مستوئی بھی شامل تھے جنہوں نے دھرنا مظاہرین سے ملاقات کی اور تینوں شرطیں مانتے ہوئے فوری علمدرآمد کی یقین دہائی کرائی۔

دھرنا شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ڈی سی کوئٹہ نے اعلان کیا کہ اسماعیل ہزارہ کے قتل کے سلسلے میں تین افراد گرفتار کئے جا چکے ہیں اور باقی ملزمان کی جلد گرفتاری کے لئے سیکورٹی اور خفیہ اداروں کے اہلکار کاسی قبرستان اور اس سے ملحقہ علاقوں کی سرچ آپریشن میں مصروف ہیں اور قوی امکان ہے کہ دیگر ملزمان کو بھی جلد ہی گرفتار کیا جائے گا۔

ڈپٹی کمشنر نے اسماعیل کے بے ہیمانہ قتل پر دلی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے یقین دلایا کہ ایس ایس پی آپریشن، طارق مستوئی انتہائی قابل اور فرض شناس آفیسر ہے اور انکے پچھلے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ دس قتل کے کیسز میں سے نو مجرموں کو سزائے موت اور ایک کو عمر قید کی سزا ہو گئی ہے۔ اسماعیل کے قاتلوں کو بھی بالکل اسی طرح کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔

ڈی سی نے مزید یقین دلایا کہ پہاڑ کی چوٹی پر پولیس اور ایف سی کی کل وقتی چیک پوسٹس قائم کی جائے گی تاکہ آئندہ کسی ناخوشگوار واقعہ سے بچا جا سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس قتل کے سلسلے میں جی آئی ٹی کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور سوشل میڈیا پر دہشت گردانہ اور اشتعال انگیز طرز فکر کی پرچار کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی کرکے سزائیں دی جائے گی۔

مقامی انتظامیہ کے دھرنے میں پہنچنے سے پہلے مظاہرین آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے اپیل کرتے دکھائی دئیے کہ وہ ہزارہ برادری کی ایک طویل عرصے سے جاری ٹارگٹ کلنگ کا سخت نوٹس لیں اور برادری کے لوگوں کو مکمل تحفظ فراہم کرنے کے لئے فوری مداخلت کریں۔ دھرنا شرکاء نے آرمی چیف کو اسکا وعدہ یاد دلایا جب انہوں نے دو ہزار اٹھارہ میں کوئٹہ کر ہنگامی دورے کے دوران ہزارہ عمائدین اور سیاسی اکابرین سے ملاقات کے دوران اپنے بیٹوں کی قسم کھاتے ہوئے یقین دلایا تھا کہ آئندہ ہزارہ قوم کی کوئی ٹارگٹ کلنگ نہیں کر سکے گا۔

برطانیہ میں مقیم ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے انسانی حقوق کے کارکن لیاقت علی ہزارہ نے کہا کہ مذہبی منافرت کی بنیاد پر شیعہ سنی کو لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک سنی کی ہلاکت کے بعد شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کا ٹارگٹ کلنگ شروع ہوجاتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ موجودہ آرمی چیف کے دوہزار اٹھارہ کے دورہ کوئٹہ کے دوران جنرل باجوہ نے وعدہ کیا تھا کہ کوئٹہ کو اسلام آباد اور لاہور کی طرز پر سیف سٹی پروجیکٹ کے تحت محفوظ بنایا جائے گا مگر یہ وعدہ آج تک وفا نہ ہو سکا۔

لیاقت علی ہزارہ نے مزید کہا کہ ہزارہ قوم کی پچھلے بیس سالوں میں ہونے والی نسل کشی کیلئے کوئی بھی فیکٹ فائنڈنگ کمیشن نہیں بنایا گیا جو یہ جان سکے کہ انہیں کیونکر قتل کیا گیا اور اس میں کون کون ملوث تھے۔

انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیشن قائم کرے جسکی سربراہی دپریم کورٹ کے اچھی ساکھ رکھنے والے حاضر سروس جج کرے جو بیس سالوں میں ہونے والی ہزارہ قتل عام کے محرکات اور اس سازش میں ملوث چہروں کو بے نقاب کرکے انہیں سخت سزائیں دلوائیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سابقہ چیف جسٹس نے ہزارہ ہزارہ قتل عام پر از خود نوٹس کیس کی ابتدائی سماعت کی تھی جسمیں حکومت اور خفیہ اداروں سے اس بابت رپورٹس طلب کی گئی تھی مگر بعد میں اس کیس کو سرد خانے میں ڈال دیا گیا۔ انہوں نے پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس سے اپیل کی کہ اس سوموٹو درخواست کو سرد خانے سے نکال کر دوبارہ سماعت کا آغاز کرے اور متاثرین کو انصاف دلانے میں اپنا آئینی کردار ادا کرے۔

انہوں نے بیس سالہ قتل عام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نا تو وفاقی اور نا ہی صوبائی حکومت نے اس اہم مسلے سے متاثر آبادی کے ازالہ کے لیے کوئی اقدامات کئے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومتی نوکریوں اور تعلیمی اداروں میں ہزارہ قوم کے لئے مخصوص کوٹہ مختص کیا جائے تاکہ متاثرہ آبادی کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز کوئٹہ میں فائرنگ کے ایک واقعہ میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ قبیلے کے ایک سولہ سالہ طالب علم اسماعیل مارے گئے تھے۔

عینی شاہدین کے مطابق نامعلوم مسلح افراد کاسی قبرستان سے متصل پہاڑ سے آئے اور فائرنگ کے بعد قبرستان کی طرف فرار ہوئے۔

قائد آباد پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار نے ڈیلی اردو کو بتایا کہ 16 سالہ طالب علم اسماعیل ہزارہ کو کاسی قبرستان کے قریب نامعلوم مسلح افراد نے ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا۔ مقتول کو 3 گولیاں لگی ہیں۔ مقتول ہزارہ ٹاؤن کے رہائشی ہے اور نویں جماعت کے طالب علم ہے۔

پیر کو سول ہسپتال میں ڈیوٹی پر مامور ایک ہزارہ پولیس اہلکار محمد ہادی پر بعض نامعلوم افراد نے خنجروں کے وار کر کے شدید زخمی کر دیا تھا۔

سول ہسپتال کوئٹہ کے ترجمان ڈاکٹر وسیم بیگ کے مطابق زخمی اہلکار کا تعلق ہزارہ برادری سے ہے جبکہ واقعہ پیر کی صبح پیش آیا جبکہ زخمی اہلکار کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔ ترجمان کے مطابق ٹریفک پولیس اہلکار کو سر پر چوٹیں آئی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملزمان نے اہلکار کے سر پر ڈنڈوں و دیگر دھاتی آلات سے وار کیا ہے جبکہ اس حوالے سے مزید تحقیقات متعلقہ پولیس کررہی ہے کہ اہلکار پر تشدد کرنے والے کون تھے اور کن وجوہات کی بناء پر واقعہ رونما ہوا ہے۔ ایڈیشنل آئی جی، رزاق چیمہ نے ایک پریس بریفنگ سے خطاب کے دوران تسلیم کیا کہ ٹریفک پولیس کے اہلکار ہادی پر کچھ لوگوں نے سول ہسپتال میں تشدد کیا تھا اور سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے انکی شناخت بھی ہو گئی تھی مگر ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آیا۔

جبکہ دوسری جانب مذکورہ واقعہ کے بعد ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے مغربی بائی پاس کو ہر قسم کی ٹریفک کے لئے احتجاجاً بند کردیا تھا اور واقعہ کے خلاف نعرہ بازی کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور فرنٹیئر کور بلوچستان کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے جسکے بعد مظاہرین کو پرامن طور پر منتشر کردیا گیا۔

واضح رہے کہ چار روز قبل ہزارہ ٹاؤن میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت اور دو کے زخمی ہونے کے بعد کوئٹہ شہر میں کشیدگی پائی جاتی ہے واقعہ کا مقدمہ درج کرکے مرکزی ملزمان سمیت 12 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ سیکورٹی ذرائع کے مطابق دو مرکزی ملزم کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ حاصل کرنے کے ساتھ باقی ملزمان سے تحقیقات جاری ہیں جبکہ اس حوالے سے باقاعدہ چالان عدالت میں 15 روز کے اندر جمع کردیا جائے گا.

صورتحال کے حوالے سے سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ واقعہ کے بعد صورتحال کو مکمل طور پر کنٹرول کرلیا گیا ہے جبکہ مذکورہ علاقے میں سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی تاکہ کسی بھی قسم کے بدامنی کے واقعہ کو بروقت روکا جاسکے۔

سانحہ ہزارہ ٹاؤن کے خلاف سیاسی جماعتوں سمیت دیگر نے شدید احتجاج کیا تھا جسکے بعد احتجاجی ریلی و دھرنا بھی ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے آفس کے سامنے دیا گیا تھا متعلقہ حکام کی جانب سے یقین دہانی کے بعد مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہوگئے تھے جبکہ واقعہ میں ہلاک ہونے والے نوجوان بلال نورزئی کے والد نے ایک ویڈیو پیغام میں عوام سے پرامن رہنے کی تلقین کی ہے۔

سیکیورٹی ذرائع کے مطابق سول ہسپتال کوئٹہ میں رونما ہونے والے واقعہ کی تحقیقات جاری ہیں جبکہ اس حوالے سے کسی کے ساتھ کسی بھی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی کسی کو شہر کا امن اور اس طرح کسی پر بھی تشدد کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں