وارث میر کیخلاف وزیر اطلاعات پنجاب کے لغو الزامات: ایچ آر سی پی، پاکستان بار کونسل اور سی پی این ای کی مذمت

اسلام آباد(ش ح ط) ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری حارث خلیق پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین عابد ساقی کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے صدر عارف نظامی اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی سمیت صحافیوں، ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد نے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کے ایک حالیہ ویڈیو بیان کی شدید مذمت کی ہے جس میں انہوں نے معروف دانشور اور صحافت کے استاد پروفیسر وارث میر مرحوم پر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے انہیں غدار وطن قرار دیا اور انکے خاندان کے خلاف نفرت پھیلا کر انکی جان و مال کے لئے خطرات پیدا کرنے کی کوشش کی۔

پنجاب کے وزیر اطلاعات کا یہ بیان دراصل جیو ٹی وی سے وابستہ صحافی حامد میر کی طرف سے ایک ٹی وی پروگرام میں شوگر کمیشن انکوائری رپورٹ کے تناظر میں وزیراعلیٰ پنجاب پر تنقید کے خلاف تھا لیکن وزیر اطلاعات اپنے باس پر حامد میر کی تنقید سے اتنے آگ بگولا ہوئے کہ انہوں نے 33 سال قبل وفات پانے والے پروفیسر وارث میر کو غدار وطن قرار دے ڈالا جن کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان انہیں 2013 میں ہلال امتیاز سے نواز چکی ہے۔

فیاض الحسن چوہان کی بے خبری کا یہ عالم ہے کہ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وارث میر نے 1971 میں مکتی باہنی کی حمائت کی اور بنگلہ دیش جا کے حسینہ واجد سے ایوارڈ وصول کیا۔

وزیر اطلاعات کو یہ معلوم نہیں کہ وارث میر 1971 میں پنجاب یونیورسٹی میں استاد تھے اور حکومت کی منظوری سے طلبہ کا ایک وفد لیکر ڈھاکہ گئے تھے تا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان میں پل بن سکیں جس کی گواہی اس وفد میں شامل حفیظ خان اور جاوید ہاشمی دے چکے ہیں اور بنگلہ دیش حکومت نے بھی اسی کوشش کا اعتراف کیا۔

وارث میر 1987 میں انتقال کر گئے اور انہوں نے کبھی بنگلہ دیش جا کر ایوارڈ وصول نہیں کیا تھا انہوں نے کبھی مکتی باہنی کی حمائت نہیں کی جہاں تک فوجی آپریشن پر تنقید کا تعلق ہے تو اس آپریشن کی ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ لیفٹینینٹ جنرل صاحبزادہ یعقوب علی خان نے بھی مخالفت کی تھی جو بعدازاں پاکستان کے وزیر خارجہ بنے، فوجی آپریشن پر تنقید سے کوئی غدار نہیں بن جاتا 1971 کے فوجی آپریشن کے بارے میں ایسی تنقید موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی اپنے ٹی وی انٹرویوز میں کر چکے ہیں۔

صوبائی وزیراطلاعات نے اپنے بیان میں یہ بھی تسلیم کر لیا کہ گذشتہ سال صوبائی حکومت نے پنجاب یونیورسٹی کے قریب وارث میر انڈر پاس کا نام اس لئے تبدیل کیا کیونکہ صوبائی حکومت حامد میر سے خوش نہیں تھی۔

صوبائی وزیر حامد میر پر تنقید ضرور کریں لیکن تنقید اور دھونس و دھمکی میں فرق ہونا چاہئے لہذا ہم انکےاس بیان کو آزادی اظہار پر حملہ سمجھتے ہیں اور وزیراعظم عمران خان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ پنجاب کے وزیر اطلاعات کی طرف سے وارث میر پر لگائے گئے بے بنیاد الزامات کا نوٹس لیں۔

یاد رہے کہ بنگلہ دیش حکومت نے 2012 میں صرف وارث میر نہیں بلکہ فیض احمد فیض، حبیب جالب، ملک غلام جیلانی، غوث بخش بزنجو اور دیگر پاکستانیوں کے لئے فرینڈز آف بنگلہ دیش ایوارڈ کا اعلان کیا تھا۔

پنجاب حکومت نے ان میں سے کسی کو غدار وطن قرار نہیں دیا کسی کے نام پر انڈر پاس اور سڑک کو تبدیل نہیں کیا صرف وارث میر انڈر پاس کا نام بدلا صرف انہی پر غداری کا الزام لگایا جس سے صاف ظاہر ہے کہ پنجاب حکومت کا اصل مسلئہ وارث میر نہیں حامد میر کی صحافت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں