مسلم لیگ ق نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی مخالفت کردی

لاہور (ڈیلی اردو) پاکستان مسلم لیگ (ق) نے اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہوئے اعتراض اٹھایا ہے کہ یہ نہ صرف ‘اسلام کی روح کے مفافی ہے’ بلکہ ‘ریاست مدینہ کی بھی توہین ہے’۔

ڈان اخبار کے مطابق پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ‘پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا، اس کے دارالحکومت میں نئے مندر کی تعمیر نہ صرف اسلام کی روح کے منافی ہے بلکہ ریاست مدینہ کی بھی توہین ہے’۔

تاہم انہوں نے یہ واضح کیا کہ ان کی جماعت اقلیتوں کے حقوق کی حمایت کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ‘موجودہ مندروں کی تزئین و آرائش میرے بحیثیت وزیراعلیٰ کے دور میں ہوئی تھی، میں نے کٹاس راج مندر کی مرمت کروائی تھی (جبکہ) میرے ہی دور میں گرجا گھروں کی مرمت کے لیے بھی پہلی مرتبہ بجٹ میں فنڈز رکھے گئے تھے’۔

علما کی بھی مندر کی تعمیر کی مخالفت

ادھر علما کے ایک گروپ نے مندر کی تعمیر کی مخالفت کی جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ایک اتحادی نے یہاں تک الزام لگا دیا کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے شریعت کے خلاف جاتے ہوئے دارالحکومت میں منر کے لیے زمین الاٹ کی۔

ڈان اخبار کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ دیوبند اور اہل حدیث مکتبہ فکر کے مدارس کے علما نے نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس میں حکومت کو مندر کی تعمیر کی اجازت دینے پر خبردار کیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے امیر مولانا عبدالمجید ہزاروی نے کہا کہ وہ ‘اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کی اجازت نہیں دیں گے’، حکومت کو شہر میں مندر کی عمارت کی تعمیر کو روکنا چاہیے ‘بصورت دیگر اس کا سخت ردعمل آئے گا’۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مندر کی تعمیر اسلامی تعلیمات کے خلاف اور ملک کے نظریے کے خلاف ہے۔

عبدالمجید ہزاروی کا کہنا تھا کہ ‘اس حکومت کو نہیں پتہ کہ وہ ریاست کے نظریے کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے، (پہلے) 14 ارب روپے کی سرمائے سے سکھوں کے لیے راہداری کھولی اور اب اسلام آباد میں مندر کی تعمیر’ ہورہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے کو وفاقی شرعی عدالت میں لے کر جائیں گے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس سلسلے میں فیصلے سے قبل سینئر علما یا اسلامی نظریاتی کونسل سے پوچھنا چاہیے۔

علاوہ ازیں مرکزی جمعیت اہل حدیث اسلام آباد کے امیر حافظ مقصود احمد نے 2017 میں مندر کے لیے زمین الاٹ کرنے پر مسلم لیگ (ن) کی حکومت جبکہ اس کی تعمیر کے لیے فنڈز کے اجرا پر موجود پی ٹی آئی کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے نظریے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔

جب علما سے پوچھا گیا کہ کیا سابق وزیراعظم کا مندر کے لیے زمین الاٹ کرنے کا فیصلہ غلط تھا تو اس پر حافظ مقصود احمد نے دعویٰ کیا کہ یہ شریعت کے خلاف تھا۔

اس موقع پر پریس کانفرنس میں رپورٹرز کی جانب سے یہ نکتہ اٹھایا گیا کہ جے یو آئی (ف) اور مرکزی جمعیت اہل حدیث دونوں مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے اتحادی تھے اور جمعیت اہل حدیثت کے لیڈر سینیٹر ساجد میر مسلم لیگ کے ہی ٹکٹ پر ایوان بالا میں منتخب ہوئے تھے۔

حافظ مقصود احمد نے کہا کہ اسلام مذہبی اقلیت کے حقوق سے انکار نہیں کرتا لیکن ساتھ ہی انہوں نے مسلمانوں کے لیے ٹیکس کی رقم کو مندر کے لیے استعمال کرنے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ ‘مختلف علما کے احکامات کی روشنی میں غیرقانونی’ ہے۔

علاوہ ازیں جماعت اسلامی اسلام آباد کے نائب امیر کاشف چوہدری کا کہنا تھا کہ دارالحکومت کی ہندو آبادی کوعبادت کے لیے سیدپور گاؤں میں موجودہ مندر دینا چاہیے۔

ساتھ ہی انہوں نے مساجد اور مدارس کے بجائے گورواروں اور مندروں پر رقم خرچ کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

مزید برآں سیکٹر ایف 6 میں جامعیہ محمدیہ کے مفتی عبدالسلام کا کہنا تھا کہ جس طرح مغرب میں مساجد کی تعمیر کے لیے مسلم فنڈ سے تعمیر ہوتی اسی طرح ہندو برادری کو حکومتی اجازت کے ساتھ اپنے خرچے پر مندر تعمیر کرنا چاہیے۔

مندر کی تعمیر کا معاملہ

خیال رہے کہ اسلام آباد میں ہندو برادری کی آبادی مبینہ طور پر تقریباً 3 ہزار ہوچکی ہے، جس میں سرکاری و نجی شعبے کے ملازمین، کاروباری برادری کے افراد اور بڑی تعداد میں ڈاکٹرز شامل ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی تھی، یہ منظوری وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کے لیے کی گئی درخواست کے بعد سامنے آئی تھی۔

اس سے قبل 23 جون کو ایچ 9 ایریا میں دارالحکومت کے پہلے مندر کی تعمیر شروع کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔

پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی کی جانب سے مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہندو پنچایت نے مذکورہ مندر کا نام شری کرشنا مندر رکھا ہے اور وہی اس کے انتظام دیکھے گی۔

اس حوالے سے پنچایت کے صدر مہیش چوہدری کا کہنا تھا کہ بلوچستان اور سندھ سمیت ملک کے مختلف حصوں سے بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد منتقل ہوگئے ہیں کیونکہ انہیں ان علاقوں میں سیکیورٹی کے مسائل تھے۔

انہوں نے کہا کہ اب جب یہاں ہمارے خاندان ہیں تو ہمیں اجتماعی عبادات اور شادیوں کی تقریب کے لیے ایک مقام کی ضرورت ہے۔

یہ بات مدنظر رہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حکم پر 2017 میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کے ایچ 9/2 میں 20 ہزار اسکوائر فٹ کا پلاٹ ہندو پنچایت کو دیا گیا تھا۔

تاہم سائٹ میپ، سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اتھارٹیز سے دستاویزات کی منظوری سمیت دیگر رسمی کارروائیوں کے پورے ہونے میں تاخیر کی وجہ سے تعمیرات کام شروع نہیں ہوسکا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں