حکومت اور فوج پر تنقیدی رپورٹنگ: صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے اغوا کرلیا گیا

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی/وی او اے/ڈی ڈبلیو) غیرجمہوری قوتوں پر تنقید کے لیے مشہور پاکستانی صحافی مطیع اللہ جان کو اسلام آباد سے ’اغوا‘ کر لیا گیا ہے اور ان کی گاڑی اس سکول کے باہر کھڑی ملی ہے جہاں وہ اپنی اہلیہ کو چھوڑنے کے لیے آئے تھے۔

مطیع اللہ جان کے ٹوئٹر ہینڈل سے کی جانے والی ایک ٹوئٹ میں مبینہ طور پر اُن کے بیٹے نے لکھا ہے کہ اُن کے والد کو دن دیہاڑے اسلام آباد کے دل سیکٹر جی سکس سے اغوا کر لیا گیا ہے۔

ٹوئٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مطیع اللہ جان کے اغوا کے پیچھے ریاستی اداروں کا ہاتھ ہے۔

مطیع اللہ جان پاکستانی حکومت اور فوج کے بارے میں تنقیدی رپورٹنگ کرتے رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اسی سبب انہیں ملک کے متعدد صف اول کے نیوز چینلز میں اپنی ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ ان دنوں وہ ایم جے ٹی وی کے نام سے اپنا ایک یو ٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔

مطیع اللّٰہ جان کے بھائی شاہد اکبر عباسی ایڈووکیٹ نے ڈی ڈبلیو کے بتایا کہ انہیں مطیع اللہ جان کی اہلیہ کی طرف سے مطیع اللہ کی گمشدگی کی اطلاع دی گئی: ”انہوں نے مجھے بتایا کہ مطیع اللہ جان کی گاڑی ان کے اسکول کے باہر کھڑی ہے اور اس کے شیشے کھلے ہوئے تھے جبکہ ان کا موبائل ان کی گاڑی میں موجود تھا۔‘‘

مطیع اللہ جان کی اہلیہ نے بی بی سی اردو کے اعظم خان کو بتایا کہ وہ منگل کی صبح ساڑھے نو بجے انھیں سیکٹر جی سکس میں واقع اس سرکاری سکول تک چھوڑنے آئے تھے جہاں وہ پڑھاتی ہیں۔

مطیع اللہ کی اہلیہ کے مطابق انھیں سکول کے سکیورٹی گارڈ نے مطلع کیا کہ ان کی گاڑی سکول کے باہر تقریباً ساڑھے گیارہ بجے سے کھڑی ہے۔

مطیع اللہ جان کی اہلیہ کے مطابق ’گاڑی کے شیشے کھلے تھے، گاڑی کی چابی اور ان کے زیر استعمال ایک فون بھی گاڑی کے اندر ہی تھا۔‘

ان کے مطابق جب میرا اپنے شوہر سے رابطہ نہیں ہو سکا تو میں نے فوراً پولیس کو فون کیا اور کچھ دیر بعد پولیس موقع پر پہنچی۔‘

سکول میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تین گاڑیوں میں سوار نصف درجن سے زیادہ افراد مطیع اللہ کو زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا رہے ہیں اور اس دوران مطیع اللہ جان اپنا فون بھی سکول کے اندر اچھال دیتے ہیں جسے ایک باوردی مسلح شخص سکول کے اندر موجود افراد سے حاصل کر لیتا ہے۔

مطیع کی اہلیہ نے بھی بتایا کہ ’ایک موبائل فون سکول کے احاطے کے اندر آ کر گرا تھا جسے ایک دوسری ٹیچر نے اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ایک وردی میں ملبوس ایک دراز قد شخص آیا اور فون مانگ کر واپس لے گیا۔ یہ سب اتنا جلدی میں ہوا کہ میں اس معاملے کو سمجھ ہی نہ سکی۔

تھانہ آبپارہ میں تعینات ایک پولیس افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ تھانے کی پولیس نے مطیع اللہ جان کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کر لی ہے تاہم اس میں چہرے ابھی واضح نہیں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اس فوٹیج کا بغور جائزہ لے کر ہی کوئی حتمی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ فوٹیج میں نظر آنے والے پولیس اہلکاروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ویڈیو میں بعض پولیس اہلکار بھی دکھائی دے رہے ہیں جنھوں نے بظاہر انسداد دہشت گردی فورس کی وردیاں پہنی ہوئی ہیں تاہم پولیس افسر کا کہنا تھا کہ اس یونیفارم کی بنیاد پر پولیس اہلکاروں کے تھانے یا تعیناتی کا درست اندازہ لگانا ممکن نہیں ہے۔

خیال رہے کہ مطیع اللہ جان کی بدھ کو سپریم کورٹ میں توہین عدالت کے مقدے میں پیشی تھی۔ گذشتہ بدھ کو پاکستان کے چیف جسٹس گلزار احمد نے انھیں ایک متنازع ٹویٹ پر نوٹس جاری کیا تھا۔

مطیع اللہ جان کون ہیں؟

مطیع اللہ جان نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز میں ماسٹرز کیا تھا اور وہ گذشتہ تین دہائیوں سے صحافت کر رہے ہیں۔

وہ پاکستان کے مختلف ٹی وی چینلز سے منسلک رہ چکے ہیں تاہم آج کل وہ یو ٹیوب پر اپنا چینل چلا رہے تھے۔

ان کے والد فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فائز تھے اور خود انھوں نے بھی فوج میں کمیشن حاصل کیا تھا تاہم کچھ عرصے بعد انھوں نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔

ستمبر2017  میں بھی مطیع اللہ جان کی گاڑی پر حملہ کیا گیا تھا۔ یہ واقعہ اسلام آباد میں بارہ کہو کے مقام پر پیش آیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار افراد نے مطیع اللہ کی گاڑی کی ونڈ سکرین پر اینٹ دے ماری تھی جس سے ونڈ سکرین پر دراڑیں پڑی تھیں۔

حملے کے وقت گاڑی میں مطیع اللہ جان کے بچے بھی ان کے ساتھ گاڑی میں موجود تھے۔

اس کے علاوہ جون 2018 میں اس وقت کے فوجی ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جب سوشل میڈیا کے بعض اکاؤنٹس پر ریاست مخالف پراپیگنڈے پر مبنی ٹویٹس کا الزام لگایا تھا اور ایسے اکاؤنٹس کا ایک چارٹ دکھایا تھا تو اس میں بھی مطیع اللہ جان کا اکاؤنٹ نمایاں کر کے دکھایا گیا تھا۔

بی بی سی کے مطابق مطیع اللہ جان کے مبینہ اغوا کے بارے میں ایک درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی دائر کی گئی ہے۔ اس درخواست میں مغوی کی بازیابی اور ذمہ داران کے خلاف کارروائی کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ یہ درخواست مغوی کے بھائی کی طرف سے دائر کی گئی ہے اور اس میں وزارت داخلہ ، وزارت دفاع اور اسلام آباد پولیس کو فریق بنایا گیا ہے۔

اس درخواست کی سماعت کے بارے میں ابھی تک اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار افس کی جانب سے کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی خبر عام ہوتے ہی پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہونے لگے۔

صحافی عباس ناصر نے مطیع اللہ جان کی گمشدگی کی خبر دیتے ہوئے کہا ان کے تحفظ کی امید ظاہر کی اور کہا کہ ’اس فاشسٹ دور میں اس قسم کے مایوس کن اقدامات زیادہ عرصے جاری نہیں رہ سکتے۔‘

اینکر اور صحافی عاصمہ شیرازی نے اپنے مختصر ٹویٹ میں لکھا ’مطیع اللہ کو واپس لاؤ‘۔

صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مطیع اللہ جان کے لاپتا ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے اُن کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی صحافی مطیع اللہ جان کی پراسرار گمشدگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ادارے کی جنوبی ایشیا شاخ کی جانب سے کی جانے والی ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ انہیں مطیع اللہ جان کے لاپتا ہونے پر تشویش ہے۔ مطیع اللہ جان کو ماضی میں بھی اپنی صحافت کی وجہ سے جسمانی تشدد کا سامنا رہا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ مطیع اللہ جان کو فوری طور پر بازیاب کرایا جائے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی مطیع اللہ جان کے لاپتا ہونے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے اُن کی فوری بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر مطیع اللہ جان کے پراسرار طور پر غائب ہونے پر تبصروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے۔ #BringBackMatiullah کا ہیش ٹیگ پاکستان میں ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے۔

ماضی میں مطیع اللہ جان کے ساتھ کام کرے والے صحافی اسامہ بن جاوید نے لکھا کہ مطیع اللہ جان پاکستان کی چند تنقیدی آوازوں میں سے ایک ہیں اور اگر وہ لاپتہ ہوئے ہیں تو یہ پاکستان کی حکومت اور سکیورٹی کے ذمہ دار افراد پر ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ یہی وہ ادارے ہیں جو تنقید کا ہدف رہے ہیں۔

اسلام کے ایک صحافی اسد علی طور نے ٹوئٹر پر ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جس میں مطیع اللہ جان کی گرفتاری کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔

ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مطیع اللہ کو نامعلوم افراد زبردستی گاڑی میں بٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما محسن داوڑ نے اپنی ٹوئٹ میں کہا ہے کہ وہ مطیع اللہ جان کے اغوا کی مذمت کرتے ہیں۔

محسن داوڑ کا کہنا ہے کہ مطیع اللہ جان ایک دلیر صحافی ہیں۔ ریاست اظہار رائے کی آزادی کے دعوے کرتی ہے لیکن حقیقت سب کے سامنے ہے۔

سینئر سیاست دان افراسیاب ختک کا کہنا ہے اسلام آباد میں سپریم کورٹ، پارلیمنٹ اور میڈیا جیسے جمہوری اداروں کی موجودگی میں یہ اقدام شرمناک ہے۔

اس واقعے کے بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سینیئر صحافی ضیاالدین نے کہا کہ ‘پاکستان کے صحافتی ادارے اور صحافی گذشتہ چند سالوں سے شدید دباؤ کا شکار ہیں، اس دباؤ کی شدت کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اخبارات اور چینلز سیلف سنسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ عمل حکومت کی خوشنودی کی خاطر نہیں بلکہ وہ حقیقی حکمرانوں یا طاقتور حلقوں کو ناراضی نہیں کرنا چاہتے۔’

ضیاالدین کا کہتے ہیں کہ ‘ایک مخصوص طرز عمل کی ذریعے صحافیوں کو خاموش کرانے کا سلسلہ جاری ہے۔ جس میں صحافیوں کا لاپتہ ہونا، نوکریوں سے برطرف کرا دیا جانا، مار پیٹ کی کی جاتی ہے، کردار کشی کی جاتی ہے یا پیغامات کے ذریعے تنبیہ کرنا شامل ہے اور کبھی نیب یا دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ذریعے ان کے خلاف مقدمات کا اندارج کیا جاتا ہے۔ یہ سب صحافی کی ملک میں طرز حکمرانی پر تنقید اور سوال اٹھانے کے قابلیت کے مطابق بوقت ضرورت کیا جاتا ہے۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ ‘پاکستان میں صحافتی برادری اور ان کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والی تنظیموں کی حالت ایسی نہیں کہ وہ صحافی مطیع اللہ کی گمشدگی یا لاپتہ کیے جانے جیسے واقعات کے خلاف مؤثر انداز میں کردار ادا کر سکے۔ حکومت پر تنقید کی وجہ سے ملک کی میڈیا انڈسٹری اور صحافیوں کے حالات سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔’

اپنا تبصرہ بھیجیں