کرغزستان کے 69 سالہ صحافی عظیم جان آسکروف جیل میں انتقال کرگئے

بشکیک (ڈیلی اردو/وی او اے) کرغزستان کی جیل میں قید انہتر سالہ صحافی اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن عظیم جان آسکروف کو 2010ء میں جیل میں ڈالا گیا تھا۔ ان پر بدامنی پھیلانے اور ایک پولیس اہل کار کے قتل میں ملوث ہونے کا الزام تھا، جس کی انہوں نے تردید کی تھی۔ بین الاقوامی سطح پر اس مقدمے اور سزا کی سخت مذمت کی گئی تھی۔

ان کے وکیل، ویلر یان واخیتوف نے ہفتے کو خبر رساں ایجنسی، اے ایف پی کو فون پر بتایا کہ وہ پچھلے ہفتے ٓآسکروف کو دیکھنے گئے تھے اور اس وقت وہ بہت کمزور ہو چکے تھے۔ وہ چلنے پھرنے سے بھی معذور تھے۔

وکیل کے بقول، ”کسی نے بھی ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ اس نظام نے ان کو مار ڈالا”۔

کرغزستان کے جیل خانوں کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں نمونیا ہو گیا تھا اور وہ ہسپتال میں داخل تھے۔ ہفتے کو وہ چل بسے۔

صحافی آسکروف کی بیوی نے 24 جولائی کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ان کے شوہر کچھ عرصے سے سخت بیمار ہیں۔ کرونا وائرس کی وبا کی وجہ سے ان کے اہل خاندان بھی ان سے نہیں مل پا رہے تھے۔

خبر رساں ایجسی اے ایف پی کے مطابق، آسکروف کو جون 2010ء میں اس وقت جیل میں ڈالا گیا تھا جب کرغزستان کے شہر اوش اور جلال آباد میں کرغز اور اقلیتی ازبک کے درمیان ہونے والی جھڑپوں میں 470 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کمیٹی نے 2016ء میں اس مقدمے اور سزا کے بارے میں تفتیش کی تھی اور کمیٹی نے دیکھا کہ انہیں یک طرفہ طور پر گرفتار کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا جا رہا ہے۔ ان پر تشدد کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ کمیٹی نے کرغزستان کی حکومت سے کہا تھا کہ وہ صحافی آسکروف کو فوری طور پر رہا کردے۔

اس سال ان کا مقدمہ دوبارہ چلا اور سزا کو بحال رکھا گیا۔

صحافی کے وکیل کا کہنا ہے کہ سزا غیر قانونی اور غیر منصفانہ تھی۔ اوش کے واقعات پر ان کو مورد الزام ٹھہرانا سراسر غلط اور غیر قانونی تھا۔OSCE کے جمہوری اداروں اور انسانی حقوق کے دفتر نے بارہا صحافی آسکروف کی رہائی کی اپیل کی۔

اس نے اپنے بیان میں کہا کہ آج ہم سب کو ان کی موت کا دکھ ہے اور اس بات کا افسوس ہے کہ کرغزستان کے حکام نے انصاف کے تقاضے پورے نہیں کیے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں