تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ اقلیتوں، فرقوں کے خلاف استعمال ہوگا، ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان

لاہور (ڈیلی اردو) پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر نظر رکھنے والی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے تحفظ بنیاد اسلام ایکٹ 2020 کی منظوری پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے خدشتہ ظاہر کیا ہے کہ تحفظ بنیاداسلام ایکٹ اقلیتوں، فرقوں کیخلاف استعمال ہوگا، پنجاب حکومت اقدام واپس لے اس سے پہلے کہ یہ حکومت کیلئے بھی نقصان دہ شکل اختیارکرے۔ ایسی پریشان کن پیش رفتوں کا مقصد دانشورانہ سوچ، تحقیق اور اظہار کی آزادی کیلئے اور گُھٹن پیدا کرنا ہے۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ پنجاب تحفظِ بنیادِ اسلام ایکٹ 2020 جس نے (دیگر مواد کے علاوہ) ایسی کتب کی اشاعت پر پابندی عائد کر دی ہے جو غیراخلاقی، مذہبی لحاظ سے توہین آمیز، یا ریاست مخالف تصور کی جاتی ہیں۔

ایچ آر سی پی نے کہا ہے کہ اس حقیقت کو پیشِ نظر رکھیں کہ مجموعہ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 505 (2) اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 8 لسانی اور فرقہ ورانہ اعتبار سے نفرت انگیز تقریر کو پہلے ہی جرم قرار دے چکی ہیں، تو پھر یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اِس نئی قانون سازی میں چُھپی نیّت ʼ کتاب جلانے والی پرانی روایت سے ملتی جلتی ہے۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل تعلقات عامہ کو یہ اختیار دینا کہ وہ تمام شہریوں کے اِیما پر فیصلہ کرے کہ کونسا ʼمواد قابل اعتراض ہے، ناقابلِ قبول امر ہے۔ یہ توقع رکھنے کی معقول وجہ بھی ہے کہ نئے ایکٹ کی دفعہ مذہبی اقلیتوں اور فرقوں کے خلاف بھی استعمال ہو گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں