صحافی جمال خاشقجی قتل: 5 افراد کی سزائے موت قید میں تبدیل، سعودی حکومت کا مقدمہ بند کرنے کا اعلان

ریاض (ڈیلی اردو/ بی بی سی) سعودی حکومت کے نمایاں ناقد جمال خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر سعودی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے قتل کر دیا تھا

سعودی عرب کی ایک عدالت نے سنہ 2018 میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث پائے گئے پانچ افراد کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا ہے۔

سرکاری میڈیا کے مطابق استغاثہ کا کہنا تھا کہ صحافی کے خاندان کی جانب سے انھیں معاف کیے جانے کے بعد انھیں 20 سال قید کی سزا دے دی گئی ہے۔

مگر ان کی منگیتر کا کہنا ہے کہ اس فیصلے نے ‘انصاف کا مذاق بنا دیا ہے۔’

سعودی حکومت کے نمایاں ناقد جمال خاشقجی کو ترکی کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے کے اندر سعودی ایجنٹوں کی ایک ٹیم نے قتل کر دیا تھا۔

سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ خاشقجی ‘بلا اجازت کی گئی ایک کارروائی’ میں ہلاک ہوئے اور اگلے سال سعودی استغاثہ نے 11 بے نام افراد پر مقدمہ چلانا شروع کیا۔

جمال خاشقجی کی منگیتر نے ان کے خاندان کی معافی کو رد کر دیا

تاہم اقوامِ متحدہ کی نمائندہ خصوصی ایگنیس کیلامارڈ نے اس مقدمے کو اس وقت ‘انصاف کا دشمن’ قرار دے کر مسترد کر دیا تھا اور وہ اس نتیجے پر پہنچی تھیں کہ خاشقجی ‘ایک سوچے سمجھے اور منصوبہ بندی کے تحت قتل’ کیے گئے جس کے لیے سعودی ریاست ذمہ دار ہے۔

کیلامارڈ نے کہا کہ اس حوالے سے قابلِ اعتبار ثبوت موجود ہیں کہ اعلیٰ سطحی حکومتی عہدیدار بشمول سعودی ولی عہد محمد بن سلمان اس میں انفرادی طور پر ذمہ دار ہیں۔

تاہم محمد بن سلمان نے ملوث ہونے سے انکار کیا جبکہ ان کے دو سابق ساتھیوں پر ترکی میں غیر حاضری میں مقدمہ چلایا جا رہا ہے۔

ان افراد پر خاشقجی کے قتل پر اکسانے کا الزام ہے۔

ترکی کی جانب سے 18 دیگر افراد پر قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔

سزائیں کیوں تبدیل کی گئیں؟

رواں مئی خاشقجی کے بیٹے صلاح نے اعلان کیا تھا کہ وہ اور ان کے بھائی ‘ہمارے والد کو قتل کرنے والوں کو اللہ کی رضا کے حصول کے لیے معاف کر رہے ہیں۔’ انھوں نے یہ مؤقف تسلیم کیا کہ یہ قتل سوچی سمجھی سازش کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔

اس معافی کے بعد موت کی سزا پانے والے پانچوں افراد کو سعودی قانون کے تحت سزا میں نرمی کی راہ ہموار ہوگئی۔

پیر کو سعودی استغاثہ نے اعلان کیا کہ ریاض کرمنل کورٹ نے جنوری میں مجرم پائے جانے والے پانچ افراد کو 20 سال قید اور دیگر تین افراد کو سات اور 10 سال کی قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

اعلان میں کہا گیا کہ یہ فیصلے حتمی ہیں اور اب مقدمے کی فوجداری کارروائی بند ہو چکی ہے۔

جمال خاشقجی کے بیٹے صلاح نے سعودی عرب کے بادشاہ سلمان اور ان کے بیٹے محمد بن سلمان سے قتل کے چند ہی ہفتے بعد ملاقات کی تھی

جمال خاشقجی کی منگیتر خدیجے چنگیز نے اپنے ایک بیان میں کہا: ‘آج سعودی عرب میں دیے جانے والے فیصلے نے ایک مرتبہ پھر انصاف کا مذاق بنا دیا ہے۔’

‘سعودی حکام یہ مقدمہ جمال کے قتل کے ذمہ داروں کا تعین کیے بغیر بند کر رہے ہیں۔ اس کی منصوبہ بندی کس نے کی، کس نے اس کا حکم دیا، ان کی لاش کہاں ہے؟ یہ سب بنیادی اور اہم سوالات ہیں جن کا کوئی جواب موجود نہیں ہے۔’

کیلامارڈ نے سزائے موت روکنے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا تاہم انھوں نے کہا کہ ان فیصلوں کو ‘جو ہوا اس پر سفیدی پھیر دینے’ کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ‘سعودی استغاثہ نے انصاف کے اس مذاق میں آج ایک اور منظر پیش کیا ہے۔ مگر ان فیصلوں کا کوئی قانونی اور اخلاقی جواز نہیں ہے۔ یہ ایک ایسے قانونی مرحلے کے بعد سنائے گئے ہیں جو نہ منصفانہ تھا نہ ہی شفاف۔’

کیلامارڈ نے کہا کہ ولی عہد محمد بن سلمان ‘کسی بھی معنی خیز تحقیقات سے مکمل طور پر محفوظ رہے’ اور انھوں نے ایک مرتبہ پھر امریکی انٹیلیجنس پر زور دیا کہ وہ اپنا وہ تجزیہ جاری کریں کہ خاشقجی کے قتل کا حکم مبینہ طور پر محمد بن سلمان نے دیا تھا۔

جمال خاشقجی کیس کا پس منظر

59 سالہ صحافی کو آخری مرتبہ دو اکتوبر 2018 میں استنبول میں سعودی قونصل خانے میں جاتے دیکھا گیا۔ وہ وہاں اپنی ترک منگیتر خدیجے چنگیز سے شادی کے لیے کاغذات لینے کے لیے گئے تھے۔

قونصل خانے کے اندر مبینہ طور پر سعودی انٹیلیجنس کی جانب سے ریکارڈ کی گئی گفتگو سننے کے بعد کیلامارڈ اس نتیجے پر پہنچیں کہ خاشقجی کو اسی دن ‘بے رحمانہ طور پر قتل’ کر دیا گیا تھا۔

سعودی استغاثہ اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ قتل سوچی سمجھی سازش کے تحت نہیں کیا گیا تھا۔

انھوں نے کہا کہ قتل کا حکم اس ‘مذاکراتی ٹیم’ کے سربراہ نے دیا جس ٹیم کو خاشقجی کو ‘قائل کر کے’ یا ناکامی کی صورت میں ‘زبردستی’ واپس سعودی عرب لانا تھا۔

خدیجے چنگیز نے ریاض کرمنل کورٹ کے حالیہ فیصلے کو انصاف سے مذاق قرار دیا ہے

استغاثہ کے مطابق خاشقجی کو زبردستی قابو کرنے کے بعد ایک نشہ آور شے کی بڑی مقدار کا ٹیکہ لگایا گیا جس کی وجہ سے ان کی ہلاکت ہو گئی۔ اس کے بعد ان کے جسم کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے قونصل خانے کے باہر ایک ‘معاون’ کے حوالے کر دیا گیا۔ ان کی لاش کبھی نہیں ملی۔

ترک استغاثہ اس نتیجے پر پہنچا کہ خاشقجی کا دم قونصل خانے کے اندر پہنچتے ہی گھٹ گیا تھا اور ان کا جسم ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا۔

دسمبر 2019 میں ریاض کرمنل کورٹ نے پانچ لوگوں کو ‘مقتول کا قتل کرنے اور اس میں براہِ راست ملوث ہونے’ پر پانچ لوگوں کو سزائے موت سنائی۔ تین دیگر افراد کو ‘جرم پر پردہ ڈالنے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے’ پر کُل 24 سال قید کی سنائی گئی۔

تین دیگر افراد مجرم نہیں پائے گئے جن میں سعودی عرب کے سابق ڈپٹی انٹیلیجنس سربراہ احمد اسیری بھی شامل تھے۔

اس کے علاوہ ولی عہد محمد بن سلمان کے سابق سینیئر مشیر سعود القحطانی سے بھی سعودی استغاثہ نے تفتیش کی تھی لیکن ان پر الزامات نہیں عائد کیے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں