سانحہ بلدیہ فیکٹری: آٹھ برس بعد دو ملزمان کو سزائے موت، رؤف صدیقی سمیت 4 ملزمان بری

کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) کراچی کی ایک انسدادِ دہشت گردی کی عدالت نے بلدیہ فیکڑی میں آتشزدگی کیس کا فیصلہ آٹھ برس بعد سناتے ہوئے کیس میں نامزد مرکزی ملزمان زبیر چریا اور عبدالرحمان عرف بھولا کو سزائے موت جبکہ چار دیگر سہولت کاروں کو عمر قید کی سزا سنائی ہے۔

اس کیس میں نامزد چار دیگر ملزمان رؤف صدیقی، اقبال ادیب خانم، عمر حسن قادری، عبدالستار کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا ہے۔ جن ملزمان کو عمر قید کی سزا سُنائی گئی ہے ان میں شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد شامل ہیں۔

کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں حب ریور روڈ کے قریب واقع ڈینم فیکٹری میں 11 ستمبر 2012 کو آگ بھڑک اٹھی تھی، اس میں جھلس کر 260 مزدور ہلاک اور 50 کے قریب زخمی ہو گئے تھے۔

علی انٹرپرائیز نامی اس فیکٹری میں آتش زنی کے مقدے میں ایم کیو ایم کے سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی، کراچی تنظیم کے سربراہ حماد صدیق، ایم کیو ایم کے اس وقت کے سیکٹر انچارج عبدالرحمان عرف بھولا، زبیر چریا، حیدرآباد کے تاجر ڈاکٹر عبدالستار خان، عمر حسن قادری، اقبال ادیب خانم، فیکٹری کے چوکیدار شاہ رخ، فضل احمد، ارشد محمود اور علی محمد کو ملزم قرار دیا گیا تھا۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ فیکڑی میں آگ لگی نہیں بلکہ لگائی گئی تھی۔

سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی اس وقت ضمانت پر ہیں عبدالرحمان بھولا اور زبیر چریا جیل میں قید ہیں جبکہ حماد صدیقی اور عمر حسن قادری مفرور ہیں۔

ملزمان پر الزام تھا کہ انھوں نے کراچی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کے حکم پر بھتے کی عدم ادائیگی پر فیکٹری میں آگ لگائی، مقدمے میں فرانزک شواہد، کیمیکل رپورٹس کے علاوہ استغاثہ نے 400 گواہ بھی پیش کیے۔

’ادھورا انصاف‘

فیکٹری میں جھلس کر ہلاک ہونے والے متاثرین کے لواحقین فیصلے کو ادھورا انصاف سمجھتے ہیں۔

سعیدہ بی بی، جن کا 18 سالہ بیٹا اعجاز عرف ایان اس واقعے میں ہلاک ہوا تھا، کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقعہ تھا، مالکان سے بھتہ مانگا گیا جو انھوں نے نہیں دیا اور ان کے بیٹے سمیت 260 بچوں کو جلنے دیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ مالکان بھی شریک جرم ہیں انھیں بھی سزا دی جائے۔‘

سعیدہ بی بی خود اس فیکٹری میں کام کرتی تھیں لیکن اچانک طبیعت خراب ہونے کے بعد جب ملازمت چھوڑی تو بیٹا اسی فیکٹری میں ملازمت کرنے لگا اور کام کے ساتھ ساتھ پرائیوٹ طور پر نویں جماعت کے امتحانات کی تیاری بھی کر رہا تھا۔

سعیدہ بی بی نے سوال کیا کہ ’مالکان کی جانب سے نو کروڑ روپے دینے کی بات ہوئی، جے آئی ٹی میں بھی اس کا ذکر آیا، وہ نو کروڑ روپے کہاں ہیں جو لواحقین کو نہیں مل سکے۔‘

اس واقعے میں 18 سالہ سلیم احمد بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ان کے والد کا کہنا ہے کہ وہ مالکان کو بھی ذمہ دار سمجھتے ہیں کیونکہ جب آگ لگنے کی اطلاع سن کر وہ یہاں پہنچے تو انھوں نے فیکڑی منیجر سے درخواست کی کہ وہ مرکزی دروازے کا تالا کھولیں مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

’اگر تالا کھولتے تو شاید کچھ جانیں بچ جاتیں۔ آٹھ سال ہو چکے ہیں مگر ہمارے زخم اب بھی تازہ ہیں۔‘

رینجرز نے مقدمے کا رخ موڑ دیا

اس مقدمے میں ابتدائی طور پر علی انٹر پرائز فیکٹری کے مالکان عبدالعزیز بھائیلہ ان کے دو بیٹوں ارشد اور شاہد بھائی سمیت جنرل منیجر اور چار چوکیداروں پر غفلت کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا تھا تاہم اس مقدمے میں اس وقت دوسرا رخ اختیار کیا جب سنہ 2015 میں رینجرز کی جانب سے ہائی کورٹ میں جے آئی ٹی رپورٹ پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھتہ نہ ملنے پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی تھی اس عمل کو دہشت گردی قرار دیا گیا۔

سنہ 2016 میں دوبارہ تحقیقات کے بعد پولیس نے دوبارہ مقدمہ درج کیا، اسی سال کے آخر میں سیکٹر انچارج ایم کیو ایم رحمان بھولا کو بیرون ملک سے گرفتار کر کے لایا گیا۔

روف صدیقی

عدالت کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے کے بعد رؤف صدیقی جیل میں قائم خصوصی عدالت سے باہر آ رہے ہیں، رؤف صدیقی کو عدم شواہد کی بنا پر بری کیا گیا ہے

رؤف صدیقی کی مقدمے میں شمولیت

عبدالرحمان عرف بھولا کے بیان کے بعد سابق صوبائی وزیر رؤف صدیقی کا نام مقدمے میں شامل کیا گیا تھا، رحمان بھولا نے مجسٹریٹ کے روبرو بیان میں کہا تھا کہ حماد صدیقی کے حکم پر اس نے زبیر چریا کو آگ لگانے کے لیے کہا تھا اس کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ رؤف صدیقی نے مالکان کے خلاف مقدمہ درج کرایا ہے اور اس مقدمے کے خاتمے کے لیے 40 سے 50 ملین روپے طلب کیے ہیں۔

سپیشل پبلک پراسیکیوٹر ساجد محبوب نے دلائل دیے کہ رؤف صدیقی نے دباؤ ڈال کر فیکٹری مالکان کے خلاف ہی مقدمہ درج کرایا۔ ملزم عبدالرحمن بھولا نے بھی بیان میں اعتراف کیا تھا کہ رؤف صدیقی اور حماد صدیقی نے متاثرین اور مالکان کے درمیان معاملہ حل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا اور سیٹیلمنٹ کے لیے فیکٹری مالکان سے چار، پانچ کروڑ روپے وصول کیے۔

فیکٹری مالک ارشد بھائلہ نے بھی اپنے بیان میں رؤف صدیقی کا نام لیا تھا۔

ایم کیوایم رہنما رؤف صدیقی کا مؤقف تھا کہ واقعہ کے بعد انھوں نے وزرات سے استعفا دے دیا تھا اور یہ کہ فیکٹری مالکان اور رحمان بھولا نے سُنی سُنائی باتوں پر اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔

رؤف صدیقی ان دنوں ضمانت پر رہا ہیں، ان کی جانب بیرون ملک جانے کی بھی درخواست کی گئی تھی اور موقف اختیار کیا گیا تھا کہ وہ انجنیئر ہیں اور ِخلیجی ممالک میں کنسلٹنٹسی تلاش کرنا چاہتے ہیں، لیکن استغاثہ کا کہنا تھا کہ وہ فرار ہو جائیں گے جس کے بعد عدالت نے رؤف صدیقی کی درخواست مسترد کر دی تھی۔

فیکٹری میں آتشزدگی کے واقعے پر بنائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ کے مطابق یہ حادثہ نہیں ’دہشتگردی‘ تھی اور مبینہ طور پر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی کراچی کی تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی کی ’ایما پر ایم کیو ایم کے کارکنوں نے یہ اقدام اٹھایا تھا۔‘

جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا ہے؟

تحریک انصاف کے وفاقی وزیر علی زیدی کی جانب سے لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عزیر بلوچ اور فشر مین کوآپریٹو سوسائٹی کے چیئرمین نثار مورائی کی جے آئی ٹیز پر تبصرے اور سامنے لانے کے مطالبات اور اس کے بعد عدالتی احکامات پر حکومت سندھ مذکورہ دونوں جے آئی ٹیز کے ساتھ بلدیہ فیکٹری واقعے کی جے آئی ٹی بھی منظر عام پر لائی تھی۔ یہ جے آئی ٹی واقعے کے ڈھائی برس بعد یعنی جون 2015 میں بنائی گئی تھی اور تقریبا پانچ برس بعد رواں سال منظر عام پر آئی۔

اس جے آئی ٹی نے پولیس کی تحقیق پر بھی کئی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ تحقیق غیر پیشہ وارانہ طریقے سے کی گئی، ایف آئی آر ’بے ایمانی‘ سے دائر کی گئی اور اس میں اندرونی و بیرونی دباؤ کا عمل دخل رہا جس نے ’دہشتگردی‘ کے واقعے کو ایک عام قتل کی شکل دی لہٰذا پہلے سے دائر ایف آئی آر واپس کی جائے اور نئے سرے سے ایف آئی درج کی جائے۔

’20 کروڑ یا فیکٹری میں شیئر دیں‘

جے آئی ٹی کے سامنے علی انٹرپرائز کے مالکان ارشد بھائیلہ اور شاہد بھائیلہ نے دبئی میں بیان ریکارڈ کروایا کیونکہ دونوں بھائی اس واقعہ کے چند ماہ بعد دبئی منتقل ہو گئے تھے۔ بیان کے مطابق واقعے سے دو تین ماہ قبل مئی، جون سنہ 2012 کو شاہد بھائیلہ نے ایم کیو ایم بلدیہ سیکٹر کے انچارج اصغر بیگ کے بھائی ماجد بیگ سے پروڈکشن منیجر منصور کے دفتر میں ملاقات کی تھی۔

ماجد نے کہا کہ سیکٹر انچارج اب ہم سے کروڑوں روپے لینے کی بات کر رہے ہیں۔ بھائیلہ کے مطابق انھوں نے اس کو ’بھتے میں اضافے کی کوشش‘ سمجھ کر نظر انداز کیا۔ اسی عرصے میں اصغر بیگ کو ہٹا کر رحمان بھولا کو بلدیہ سیکٹر کا انچارج مقرر کیا گیا۔

‘ایک روز فیکٹری میں رحمان بھولا نے کار کے سامنے آ کر دھمکی دی کہ بھتے کا معاملہ حل کریں اور ایم کیو ایم کی کراچی میں تنظیمی کمیٹی کے سربراہ حماد صدیقی سے رابطہ کریں۔ اس نے 20 کروڑ روپے یا فیکٹری میں حصہ دینے کی بات بھی کی۔‘

ملزم رضوان قریشی نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ پارٹی کے مرکزی رہنما حماد صدیقی نے فرنٹ مین رحمان بھولا کے ذریعے 20 کروڑ روپے بھتہ مانگا تھا۔

فیکٹری مالکان نے اس سے بلدیہ کے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کو آگاہ کیا جو اپنے بھائی ماجد بیگ سمیت انھیں عزیز آباد میں نائن زیرو لے گئے جہاں وہ کراچی تنظیمی کمیٹی یعنی کے ٹی سی کے سربراہ حماد صدیقی اور فاروق سلیم سے ملے اور بتایا کہ مالکان پارٹی کے ہمدرد ہیں اور انھیں بھتے کے بارے میں آگاہ کیا۔

اسی دوران ان میں تلخ کلامی ہوئی، حماد صدیقی اور فاروق نے اس کو ’پارٹی پالیسی‘ قرار دیا اور مطالبے سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا۔ کچھ دنوں بعد حماد صدیقی نے سیکٹر انچارج اصغر بیگ کو معطل کر دیا اور جوائنٹ سیکٹر انچارج رحمان بھولا کو سیکٹر انچارج بنا دیا اور رحمان بھولا کو 20 کروڑ روپے بھتہ وصول کرنے کا حکم دے دیا۔

آگ کیسے لگی؟

اکاؤنٹنٹ عبدالمجید نے اپنے بیان میں جے آئی ٹی کو بتایا کہ واقعے والے روز رات کو ساڑھے آٹھ بجے کے قریب شاہد بھائیلہ نے دفتر سے فائل لانے کے لیے کہا جو گودام کے ویئر ہاؤس کے قریب واقع تھا۔ اسی دوران اس نے ایک عجیب سے بُو محسوس کی جو اس سے قبل کبھی محسوس نہیں کی تھی، وہ دفتر سے باہر آیا تو اس نے آگ کی چنگاریاں دیکھیں اور پلک جھپکنے میں شعلے بلند ہو گئے، وہ خوف زدہ ہو گیا اور انتظامیہ کے دفاتر کی طرف بھاگا۔

ڈائریکٹر سٹاف کے ساتھ پہنچا اور حکم دیا کہ مین سوئچ آف کر دیں تاکہ شارٹ سرکٹ سے بچا جا سکے۔ انھوں نے بتایا کہ وہاں گرمائش اس قدر تھی کہ کھڑا ہونا دشوار تھا۔

پروڈکشن منیجر محمد منصور نے بھی اس بیان کی توثیق کی اور جے آئی ٹی کو بتایا کہ 11 ستمبر کو وہ ارشد اور شاہد بھائلہ کے دفتر میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عبدالمجید چلایا کہ فیکٹری میں آگ لگ گئی ہے جب دفتر سے باہر آئے تو آگ پھیل چکی تھی عبدالمجید کو فائر بریگیڈ لانے کے لیے بھجوایا گیا جو ڈیڑھ گھنٹہ گزرنے کے باوجود نہیں پہنچی۔

فیکٹری کے گیٹ کیپر ارشد محمود نے جے آئی ٹی کو بتایا کہ وہ تقریباً رات کو آٹھ بجے فیکٹری کے فینیشنگ ڈپارٹمنٹ میں ملازم زبیر عرف چریا سے ملے۔

بلدیہ گارمنٹس فیکٹری میں آتشزدگی کے مرکزی ملزم رحمان بھولا کی گرفتاری گذشتہ دنوں انٹرپول کے ذریعے عمل میں لائی گئی تھی

اس وقت زبیر پانچ دیگر لوگوں کے ساتھ تھا جن میں وسیم دہلوی بھی شامل تھے جبکہ دیگر کو وہ نہیں جانتا۔ ‘زبیر نے کہا کہ انھیں واش رومز کی طرف لے جاؤ کچھ دیر کے بعد زبیر بھی آ گیا اور اس نے سگریٹ میں بھری ہوئی چرس دی۔ چونکہ فیکٹری میں سگریٹ پینا منع ہے تو میں ڈر گیا کہ کوئی رنگے ہاتھوں پکڑ کر انتظامیہ کے حوالے نہ کر دے۔

’زبیر نے سیاہ رنگ کے لفافے اپنے دوستوں کو دیے (جس میں کوئی مواد موجود تھا)، جو زبیر نے ویئر ہاؤس میں پھینکے۔۔۔ دس سیکنڈ میں آگ بھڑک اٹھی۔ تمام افراد ویئر ہاؤس سے نکل گئے۔‘

جے آئی ٹی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ارشد محمود نے 15 سے 20 ملازمین کے ساتھ آگ بجھانے کی کوشش کی لیکن آگ قابو سے باہر ہو گئی۔ اس نے دوبارہ دو تین منٹ کے بعد زبیر کو دیکھا جب آگ دوسری منزل پر پہنچ گئی تو اس نے مالکان کو یہ کہتے سُنا کہ سامان نہ بچاؤ، لوگوں کی زندگیاں بچاؤ۔

جے آئی ٹی کو دیے گئے بیان میں ارشد محمود نے مزید کہا کہ وہ فیکٹری کے دوسرے بلاک کی طرف دوڑے لیکن سیکنڈ فلور پر سیڑھیوں کا راستہ بند تھا جبکہ کینٹین کی طرف جانے والے دروازے بھی بند تھا، کسی نے اس کو کنیٹین کی چابی دی اور جب اس نے دروازے کھولا تو حیران ہوا کہ زبیر اور کچھ اجنبی موجود تھے۔

پروڈکشن مینیجر محمد منصور نے بھی اپنے بیان میں اس صورتحال کی تصدیق کی اور کہا کہ فیکٹری ورکرز کاشف اور شانی نے زبیر اور وسیم دہلوی کو چند اجنبیوں کے ساتھ گودام میں دیکھا جہاں آگ بھڑکی تھی اور کچھ ملازمین نے انھیں چھت پر بھی دیکھا۔

جے آئی ٹی نے اپنے رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ فیکٹری کے دروازے بند نہیں رہتے تھے ماسوائے گودام کے جہاں سے ڈینم کی سامان کی منتقلی ہوتی تھی۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ فیکٹری سے محفوظ نکلنے والے مزدوروں نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں