سانحہ آرمی پبلک سکول: حملہ سکیورٹی کی ناکامی قرار، کمیشن کی رپورٹ عام کرنیکا حکم

اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) پشاور میں سنہ 2014 میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے شدت پسندوں کے حملے کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کے لیے تشکیل پانے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو سکیورٹی کی ناکامی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ اس واقعے نے ہمارے سکیورٹی نظام پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ نے چھ برس قبل پشاور میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے سے متعلق تحقیقات کے لیے قائم کیے گئے عدالتی کمیشن کی رپورٹ عام کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ کمیشن پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس محمد ابراہیم خان پر مشتمل تھا اور اس نے 500 سے زائد صفحات پر مشتمل سانحہ آرمی پبلک سکول کی رپورٹ جولائی 2020 میں چیف جسٹس آف پاکستان کو بھیجی تھی۔

انکوائری کمیشن نے سکول کی سیکیورٹی پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں جبکہ دھمکیوں کے بعد سکیورٹی گارڈز کی تعداد میں کمی کے علاوہ درست مقامات پر عدم تعاون کی کمی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ آرمی پبلک سکول کی سکیورٹی کا انتظام فوج کے ذمے ہوتا ہے تاہم یہ ضروری نہیں کہ اس کے لیے فوج کے اپنے ہی اہلکار مامور ہوں۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند سکول کے عقب سے بغیر کسی مزاحمت کے داخل ہوئے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر سکیورٹی گارڈز نے مزاحمت کی ہوتی تو شاید اتنا جانی نقصان نہ ہوتا۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ افغانستان سے شدت پسند مہاجرین کے روپ میں پاکستان میں داخل ہوئے اور ان شدت پسندوں کو مقامی افراد کی طرف سے ملنے والی سہولت کاری کو کسی طور پر بھی معاف نہیں کیا جاسکتا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر اپنا ہی خون غداری کر جائے تو اس کے نتائج بڑے خطرناک ہوتے ہیں، اور کوئی ایجنسی ایسے حملوں کا تدارک نہیں کرسکتی جب دشمن اندر سے ہی ہو۔

رپورٹ میں تذکرہ کیا گیا ہے کہ کیسے انسدادِ دہشتگردی کے قومی ادارے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کی طرف سے فوج کے مراکز فوجی افسران اور ان کے خاندانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے ایک عمومی الرٹ جاری کیا تھا اور اس الرٹ کے بعد فوج نے شدت پسندوں کے خلاف کارروائیاں شروع کیں۔

اس رپورٹ میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ اے پی ایس کے واقعے نے فوج کی شدت پسندوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کو پس پشت ڈال دیا تھا۔

اٹارنی جنرل کے تبصرے بھی پبلک کرنے کا حکم

اس سے قبل چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سانحہ آرمی پبلک سکول سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کی، جس کے دوران عدالت نے اس کمیشن کی رپورٹ سے متعلق اٹارنی جنرل کے کمنٹس بھی پبلک کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے کہا کہ اس بات کا تعین اوپر سے ہونا چاہیے کہ کس کی غفلت کی وجہ سے یہ واقعہ رونما ہوا۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ سیکیورٹی اداروں کو اس حملے کی منصوبہ بندی اور سازش کے بارے میں اطلاع ہونی چاہیے تھی۔

عدالت کا کہنا تھا کہ اتنی سکیورٹی میں بھی عوام محفوظ نہیں ہیں تو یہ بات لمحہ فکریہ ہے۔ عدالت کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ کس کی عفلت سے ہوا اس بارے میں کسی نے کوئی معلومات فراہم نہیں کیں جو کہ قابل افسوس امر ہے۔

سماعت کے دوران واقعے میں ہلاک ہونے والے طلب علموں کے والدین نے عدالت کو بتایا کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا نہیں بلکہ ’ٹارگٹ کلنگ‘ کا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں یہ المیہ رہا ہے کہ کسی بھی واقعے میں نیچے والوں کو پکڑا جاتا ہے جبکہ بڑے لوگوں کو پوچھا بھی نہیں جاتا۔

اُنھوں نے کہا کہ کم از کم آرمی پبلک سکول کے واقعے میں ایسا نہیں ہونا چاہیے اور اوپر والے لوگوں کو پکڑا جانا چاہیے، جو بھی فرائض میں غفلت کا مرتکب پایا گیا ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ اس واقعے نے پوری قوم کو رنجیدہ کر دیا تھا۔

’وہ لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے‘

اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا تھا کہ وہ زندہ لاشوں کی طرح گھوم رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں ہی ان ذمہ داروں کو سزا مل جائے جو ان بچوں کی ہلاکت کے ذمہ دار ہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ لوگ جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے اس میں کامیاب رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب عوام محفوظ نہیں ہیں تو اتنا بڑا ملک اور نظام کیسے چلایا جا رہا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا چاہیے جس سے مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جاسکے۔

سرکاری تحقیقات سے مطمئن نہیں، والدین

اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ وہ اس کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں اپنے بچوں کا کیس لڑنا چاہتے ہیں۔

سماعت کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہویے انھوں نے کہا کہ اُنھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ فائرنگ کس نے کی، بلکہ اُنھیں تو صرف یہ غرض ہے کہ اصل ذمہ داروں کا تعین ہو۔

اُنھوں نے کہا کہ ان کے بچے تو واپس نہیں آسکتے لیکن اس اقدام سے دوسرے بچوں کو تحفظ ملے گا۔

اُنھوں نے کہا کہ اس واقعے سے متعلق حکمرانوں نے جس طرح کی تحقیقات کروائی ہیں اس سے وہ کسی طرح بھی مطمئن نہیں ہیں اور اگر وہ عدالتی فیصلے سے مطمئن نہ ہوئے تو اگلے اقدام کے بارے میں سوچیں گے۔

اُنھوں نے کہا کہ اس واقعہ کی جامع تحقیقات کا مطالبہ اس لیے کیے جارہا ہے کہ تاکہ مستقبل میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہ آئے۔

کمیشن نے رپورٹ کیسے تیار کی؟

کمیشن کی جانب سے اس واقعے میں زخمی ہونے والے بچوں اور مارے جانے والے بچوں کے والدین سمیت 132 افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے جن میں 101 عام شہری اور 31 سکیورٹی اہلکار اور افسران شامل تھے۔

یہ تحقیقاتی کمیشن سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے 2014 میں آرمی پبلک سکول پر شدت پسندوں کے حملے میں مارے جانے والے طلبا اور اساتذہ کے والدین کی درخواست پر 2018 میں قائم کیا تھا۔

پشاور کے وارسک روڈ پر قائم آرمی پبلک سکول پر مسلح شدت پسندوں نے 16 دسمبر 2014 کو حملہ کر کے طلبہ، اساتذہ اور عملے کے ارکان کو نشانہ بنایا تھا۔ اس حملے میں 147 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی تھی۔

پاکستانی فوج کے شعبۂ تعلقاتِ عامہ کے مطابق آرمی پبلک سکول پر حملہ کرنے والا گروپ 27 ارکان پر مشتمل تھا جس کے نو ارکان مارے گئے جبکہ 12 کو گرفتار کیا گیا تھا۔

پاکستانی حکام نے اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر سزا دی ہے تاہم ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین کا مؤقف رہا ہے کہ ان کے بچے ایک چھاؤنی میں قائم فوج کے زیر انتظام سکول میں حصولِ تعلیم کے لیے گئے تھے وہ جنگ کے محاذ پر نہیں تھے اور یہ کہ وہ اپنے بچوں کی حفاظت کی فیس سکول انتظامیہ کو باقاعدگی سے دیتے تھے تو پھر یہ واقعہ کیسے پیش آیا، کس کی ایما پر ہوا اور کس کی غفلت کا نتیجہ تھا؟

والدین کا یہی مطالبہ رہا ہے کہ اس سلسلے میں ذمہ داری کا تعین کیا جائے اور جن کی غفلت یا لاپرواہی سے یہ حملہ ہوا ہے انھیں سزا دی جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں