سانحہ کارساز: 13 برس گزر جانے کے بعد بھی ملزمان کا سراغ نہ ملا

کراچی (ڈیلی اردو) سانحہ کارساز کراچی کو 13 سال بیت گئے۔ دردناک واقعے میں پیپلزپارٹی کے 177 کارکنان اور جیالے ہلاک ہوئے، ہر سال واقعہ کی یاد میں اس دن شہدا کو یاد کیا جاتا ہے۔ 

کراچی میں کارساز کے مقام شاہراہ فیصل پر وہ سانحہ ہوا جو 13 سال گزرجانے کے باوجود بھلایا نہیں جاسکا۔

پیپلزپارٹی کے جیالے ملک بھر سے سابق وزیرِ اعظم  بے نظیر بھٹو کی وطن واپسی پر ان کا استقبال کرنے کراچی پہنچے تھے۔

18 اکتوبر 2007 کو عوام کا ایک جم غفیر محترمہ کے استقبال کے لیے موجود تھا، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکا قافلہ جلسہ گاہ کی طرف بڑھ رہا تھا اس موقع پر کارکنان کی خوشی دیدنی تھی، ہر ایک کا چہرہ اپنی قائد کو دیکھ کر جگمگا رہا تھا۔

پیپلزپارٹی کے کاروان جمہوریت اور جانثاران بے نظیر کو اس وقت خون میں نہلا دیا گیا جب وہ کارساز پہنچے۔ ٹھیک رات بارہ بج کر 52 منٹ پر 50 سیکنڈ کے وقفے سے یک باد دیگرے دو دھماکے ہوئے۔ ان دھماکوں میں بے نظیر بھٹو محفوظ رہیں۔ 20 سکیورٹی اہلکاروں سمیت 177 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 500 سے زائد زخمی ہوئے۔

محترمہ بے نظیر بھٹو نے واقعے میں القاعدہ، لال مسجد اسلام آباد کے عسکریت پسندوں اور جنداللہ کو سانحہ کارساز میں ملوث قرار دیا تھا۔

جبکہ حکومتی اداروں نے عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ چیف فاہد محمد علے مسلم اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر بیت اللہ محسود کو ملوث قرار دیا تھا۔

سانحہ کارساز کے ضمن میں دو مقدمات درج کیے گئے۔ دوسری ایف آئی آر سندھ کے سابق وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے درج کرائی۔

اہم بات یہ ہے کہ دھماکے کی جگہ کو بھی اسی رات دھو دیا گیا تھا جس کی وجہ سے کئی اہم ثبوت ضائع ہو گئے۔ پولیس نے مختلف افراد کو حراست میں لیا لیکن ٹھوس ثبوت نہ ملنے پر ان کو بھی رہا کردیا گیا۔

اس حوالے سے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی کتاب میں جس حزب المجاہدین کے قاری سیف اللہ اختر کا ذکر کیا اس سے بھی تفتیش کی گئی۔

سیف اللہ اختر کا امیگریشن ریکارڈ چیک کیا گیا تو پتہ چلا کہ محترمہ کے کراچی کے جلوس میں دھماکے کے وقت وہ دبئی میں تھا اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا جو بعد میں ڈرون حملے میں مارا گیاتھا ۔

سانحہ کارساز کے انویسٹی گیشن آفیسر ڈی ایس پی نواز رانجھا کو بھی قتل کردیا گیا تھا۔

بےنظیر بھٹو کی پلاکت کی تفتیش کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن نے کراچی کا بھی دورہ کیا اور اس واقعہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کیں۔

تفتیشی ٹیم کی جانب سے دوسری ایف آئی آر کا سبب بننے والے محترمہ بے نظیر بھٹو کا وہ اہم خط بھی بارہا درخواست کے باوجود تفتیشی حکام کو نہیں ملا ہے جس کی وجہ سے تفتیش آگے نہ بڑھ سکی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں