کیپٹن صفدر گرفتاری: آرمی چیف قمر باجوہ نے کراچی میں ہونیوالے واقعے کا نوٹس لے لیا

اسلام آباد + کراچی (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مسلم لیگ نواز کے رہنما کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے اندارج اور ان کی گرفتاری سے پہلے آئی جی سندھ سے متعلق مبینہ واقعے کا نوٹس لیں اور اس معاملے کی انکوائری کروائیں۔

کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سب سوال کر رہے ہیں کہ صبح سویرے سندھ آئی جی مشاق مہر کے گھر کا گھیراؤ کس نے کیا اور ان کے گھر داخل ہوکر انھیں اپنے ساتھ کون لے کر گیا۔

بلاول بھٹو کی پریس کانفرنس ہی کے دوران فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے کراچی واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے کراچی کور کمانڈر کو ہدایت کی ہے کہ وہ اس معاملے سے منسلک حقائق کا تعین کریں اور جلد از جلد اپنی رپورٹ پیش کریں۔

یاد رہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن صفدر کو پیر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پیر کو ہی ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز نے الزام عائد کیا تھا کہ سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو کراچی میں ’سیکٹر کمانڈر‘ کے دفتر لے جایا گیا جہاں اُن سے زبردستی کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات پر دستخط کروائے گئے۔

پیر کو بعض ایسی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں کہ آئی جی سندھ سے متعلق مبینہ واقعے کے بعد سندھ میں پولیس افسران کی جانب سے احتجاجاً چھٹی پر جانے کی درخواستین دی گئی ہیں۔

سندھ پولیس کے ایڈیشنل انسپیکٹر جنرل عمران یعقوب منہاس نے سندھ حکومت سے دو ماہ کی رخصت طلب کرتے ہوئے اپنی درخواست میں وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ کیپٹن صفدر کے خلاف ایف آئی آر کے معاملے پر ’پولیس کی اعلیٰ کمان کی جس طرح توہین ہوئی اس سے انھیں صدمہ ہوا ہے‘۔

اپنی درخواست میں انھوں نے لکھا کہ اس تناؤ والی صورتحال میں ان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ اپنے فرائض سرانجام دیں سکیں اور ’اس صدمے سے نکلنے کے لیے ان کی دو ماہ کی چھٹی کی درخواست قبول کی جائے‘۔

بلاول بھٹو نے کیا کہا؟

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پولیس فورس کی بےعزتی چیف منسٹر کی جانب سے نہیں ہوئی بلکہ کسی اور طرف سے ہوئی ہے۔ ‘آپ کی عزت کا سوال ہے تو میری عزت کا سوال ہے۔تنگ نظر اور غیر سیاسی فیصلوں کی وجہ سے پولیس افسران اور پولیس اہلکار کا مورال گرا۔’

بلاول کا کہنا تھا کہ پولیس افسران کو زیادہ حوصلہ اس وقت ملے گا جب آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی اس معاملے کی بذات خود انکوائری کریں۔

‘صوبہ اپنی تحقیقات کرے گا۔ یہ تاثر نہیں ہونا چاہیے کہ فوج کسی پارٹی کے پیچھے ہے۔ جو مریم نواز اور کیپٹن صفدر کے ساتھ ہوا وہ انتہائی شرمناک ہے، اس پر میں شرمندہ ہوں اور منھ دیکھانے کے قابل نہیں رہا۔ یہ سب میرے صوبے میں کیسے ہوا۔’

انھوں نے کہا کہ پولیس کی عزت پر کوئی کمپرومائز نہیں ہو گا چاہے سامنے کتنا ہی بڑا بندہ کیوں نہ ہو۔

بلاول کا کہنا تھا کہ سب اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں۔ پولیس کی عزت نہیں رہے گی تو وہ کام کیسے کریں گے۔ آج سندھ پولیس حوصلہ شکنی کا شکار ہے۔’

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس کی تحقیقات کریں کہ وہ کون لوتے تھے جو صبی چار بجے آئی جی سندھ مشتاق مہر کو اپنے ساتھ لے گئے۔

انھوں نے کہا کہ ان اداروں کا کام نیشنل سکیورٹی کا ہونا چاہیے تھا، پیپلز پارٹی اور اس کی حکومت پولیس کے ساتھ کھڑی ہے۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ اس ملک کے جو حالات ہیں ان کو بہتر کرنا کسی فوج یا کسی ایک جماعت کے بس کی بات نہیں ہے۔ ‘اس معاملے میں بہت سی ریڈ لائنز کراس کی گئیں۔’

یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس سے تھوڑی دیر بعد سوشل میڈیا پر ڈی آئی جی سپیشل برانچ عمران یعقوب منہاس کی چھٹی کی درخواست سامنے آئی جو سوشل میڈیا پر شیئر ہوئی تھی۔

وزیر اعلیٰ سندھ کی پریس کانفرنس

اس سے قبل منگل کو وزیرِ اعلیٰ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس کمیٹی میں تین سے پانچ وزرا شامل ہوں گے تاہم انھوں نے کہا کہ ابھی تک ناموں کا فیصلہ نہیں کیا گیا۔

منگل کو کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں نے کیپٹن (ر) صفدر کی گرفتاری کے لیے آئی جی سندھ کے اغوا اور رینجرز کے دفتر میں اُنہیں زبردستی کیپٹن صفدر کی گرفتاری پر مجبور کرنے سے متعلق سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔

منگل کو میڈیا سے بات کرتے ہوئے مراد علی شاہ کا لہجہ جارحانہ تھا اور انھوں نے متعدد بار مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کے خلاف درج ہونے والے مقدمے کو ‘جھوٹا’ قرار دیا۔

انھوں نے کہا کہ پولیس قانون کی پابند ہے اور مقدمہ کوئی بھی داخل کروا سکتا ہے، تاہم جس دوران پولیس اپنی کارروائی کر رہی تھی تو کئی اور باتیں سامنے آئی ہیں جو ’تشویشناک‘ ہیں۔ ’ان تشویشناک باتوں کے لیے ہم نے کابینہ کے رفقا سے مشاورت کی اور یہ فیصلہ ہوا کہ حقائق سامنے آنے چاہییں، جن کے لیے ایک باقاعدہ انکوائری ہونی چاہیے۔‘

تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’فیصلہ کورٹ نے کرنا ہے، تفتیش پولیس کرے گی، میں صرف حقائق آپ کو بتا رہا ہوں۔‘

بی بی سی کے مطابق پاکستان کے متعدد ٹی وی چینلز نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی پریس کانفرنس لائیو دکھائی اور تمام نظریں یہ سننے کے لیے بے تاب تھیں کہ وہ آئی جی سندھ مشتاق مہر کے بارے میں کیا کہتے ہیں کیونکہ سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے پیر کو یہ کہا تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ نے بتایا ہے کہ آئی جی سندھ کو صبح چار بجے سیکٹر کمانڈر کے دفتر لے جایا گیا جہاں ایڈیشنل آئی جی پہلے سے موجود تھے اور وہاں ان سے کیپٹن صفدر کے وارنٹس پر دستخط کرائے گئے۔

تاہم وزیراعلیٰ نے اپنی پریس کانفرنس میں اس موضوع پر براہ راست کوئی بات کی اور نہ بعد میں سوال و جواب کے سیشن میں صحافیوں کے اصرار کے باوجود اس بارے میں کسی سوال کا جواب دیا۔

کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کو کیوں گرفتار کیا گیا تھا؟

یاد رہے کہ 18 اکتوبر کو محمد صفدر، ان کی اہلیہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی، اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماؤں اور کارکنوں نے مزارِ قائد پر حاضری دی تھی۔

اس دوران کیپٹن (ر) صفدر بانی پاکستان کی قبر کی جالی کے اندر کھڑے ہو کر ’ووٹ کو عزت دو‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دیے۔

19 اکتوبر کی صبح کو کراچی پولیس نے ان کے خلاف درج ایک مقدمے کو بنیاد بنا کر کراچی کے ایک ہوٹل سے انھیں گرفتار کر لیا۔

پیر کو پی ڈی ایم کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا تھا کہ آئی جی سندھ کو یرغمال بنا کر رینجرز کے ‘سیکٹر کمانڈر’ کی جانب سے زبردستی مقدمہ درج کروایا گیا

مریم نواز کا کہنا تھا کہ اس گرفتاری کے لیے احکامات پر آئی جی سندھ کو یرغمال بنا کر رینجرز کے ’سیکٹر کمانڈر‘ کی جانب سے زبردستی دستخط لیے گئے۔

تاہم مریم نواز کے انتہائی وثوق سے کیے گئے اس دعوے پر مراد علی شاہ نے کوئی بات نہیں کی۔

مراد علی شاہ نے مزید کیا کہا؟

وزیرِ اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمہ وقاص نامی جس شخص نے درج کروایا ہے، اس کی جب لوکیشن نکالی گئی تو معلوم ہوا کہ 19 اکتوبر کو چار بج کر 45 منٹ سے چار بج کر 52 منٹ تک وہ شخص بقائی میڈیکل یونیورسٹی ہسپتال میں موجود تھے۔

واضح رہے کہ بقائی یونیورسٹی بانی پاکستان کے مزار سے خاصے فاصلے پر حیدرآباد کو جانے والی شاہراہ پر موجود ہے۔

انھوں نے مزار پر نعرے بازی کے حوالے سے کہا کہ وہ واقعہ نامناسب تھا۔ ’میں اس کا جواز پیش نہیں کر رہا مگر یہی حرکات پی ٹی آئی کئی مرتبہ کر چکی ہے، میں پی ٹی آئی کی حقیقت سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں۔‘

مراد علی شاہ نے کہا کہ یہ منصوبہ ناکام ہونا تھا ’جس میں ایک وفاقی وزیر بھی شامل تھا جس نے ایک الٹی میٹم بھی دیا تھا۔‘

وزیر اعلی نے دعویٰ کیا کہ تحریک انصاف نے وقاص نامی شخص سے ایف آئی آر کے لیے درخواست دلوائی جس نے کہا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس وقت وہ درخواست دینے آیا تو ساتھ تحریک انصاف کے ایم پی اے تھانے میں ان کے ساتھ موجود تھے۔

انھوں نے اس امر کے لیے ‘سازش’ کا لفظ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ وقاص کو استعمال کرنے سے یہ ظاہر ہو گیا کہ کیس جھوٹا ہے۔

اپنی پریس کانفرنس کے دوران وزیراعلی سندھ نے تین افراد کی تصاویر بھی دکھائیں جن میں مقدمے کا مدعی وقاص اور ان کے دیگر ساتھیوں کو دیکھا جا سکتا تھا۔

انھوں نے سوال کیا کہ کوئی شخص اپنے حریف کے جلسے میں کیوں جائے گا، سوائے اس کے کہ اسے وہاں کسی سازش کے تحت بھیجا گیا ہو۔

’ایک شخص جو بقائی ہسپتال میں بیٹھا ہے وہ کہتا ہے کہ ساڑھے چار بجے مجھے دھمکی آئی، وہ شخص اشتہاری مجرم ہے۔‘

انھوں نے جارحانہ انداز میں کہا کہ ‘آپ کے سامنے ہے کہ کون قائد اعظم کے مزار کو استعمال کرنا چاہ رہا ہے اور کون اس کا تقدس پامال کرنا چاہتا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کے اراکین نے کوشش کی کہ کچھ کر سکیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے۔

’ایک نجی شخص مقدمہ داخل کرواتا ہے تو اس کے ساتھ پوری پی ٹی آئی کی ٹیم کیوں موجود ہوتی ہے، اس کے ساتھ پی ٹی آئی کے وکلا موجود تھے۔‘

’پولیس نے صحیح طریقہ کار بتایا‘

مراد علی شاہ نے کہا کہ چونکہ جلسہ رات گئے ساڑھے 12 بجے تک چلا تو وہ دیر سے گھر آئے اور صبح انھیں معلوم ہوا کہ ’تحریک انصاف نے کیا حرکت کی ہے۔‘

انھوں نے نام لیے بغیر ایک وفاقی وزیر کے حولے سے کہا کہ وہ ’الٹی میٹم بھی دیتے رہے کہ میں دیکھتا ہوں ایف آئی آر کیسے نہیں درج ہوتی۔ ان کو غیر قانونی کام کرنا تھا۔‘

مراد علی شاہ نے کہا کہ انھیں صبح ساڑھے سات بجے کے قریب معلوم ہوا کہ کیپٹن (ر) صفدر گرفتار ہوئے ہیں۔ پھر معلوم کیا تو پتہ چلا کہ ایف آئی آر ہوئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ جس طریقے سے گرفتاری ہوئی ہے انھیں اس پر خدشات ہیں۔

وزیر اعلی مراد علی شاہ نے تحریک انصاف کے کارکنوں اور وفاقی وزرا پر الزام لگایا کہ انھوں نے ’ایک سازش کے تحت‘ حزب اختلاف کے کراچی جلسے میں رخنہ ڈالنے کی کوشش کی اور پولیس پر مقدمہ درج کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کی بارہا کوششیں کیں۔

تاہم انھوں نے کہا کہ مقدمہ درج کروانے کی متعدد کوششوں پر ہر بار پولیس نے ان کی صحیح طریقہ کار کے حوالے سے رہنمائی کی۔

ان کا کہنا تھا کہ جلسے میں لوگوں کی آمد کو دیکھتے ہوئے ’وفاقی حکومت بوکلاہٹ کا شکار ہو گئی۔ پہلے حکمران جماعت کے ایک ایم پی اے نے پولیس کو درخواست دی تو انھیں پولیس نے سمجھایا کہ آپ ایسا نہیں کر سکتے اور صحیح طریقہ کار بتایا۔‘

مراد علی شاہ نے مزید بتایا: ’پھر ایک اور ایم پی اے آ جاتے ہیں، پھر انھیں سمجھایا جاتا ہے۔ پھر ایک شخص ایم پی اے کے ہمراہ درخواست دیتا ہے۔‘

مراد علی شاہ کے مطابق قانون کے تحت یہ درخواست میجسٹریٹ کو پیش ہوتی ہے اور پولیس اس معاملے پر کارروائی نہیں کر سکتی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس پر دباؤ ڈالنے کی کوششیں کی گئیں اور انھیں ڈرایا دھمکایا گیا۔

’یہ لوگ بھی مؤقف دینا چاہتے ہیں تو دیں‘

مراد علی شاہ نے بظاہر پاکستان تحریکِ انصاف کو پیشکش کی کہ اگر وہ بھی سندھ حکومت کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے اپنا مؤقف رکھنا چاہتے ہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔

’جو کچھ بھی ہوا 18 تاریخ کو شام ساڑھے چار بجے سے 19 کی شام چھ بجے تک اس پر ہم وزارتی کمیٹی بنائیں گے، اگر یہ لوگ بھی کمیٹی کے سامنے آنا چاہتے ہیں تو آئیں اور مؤقف دیں۔‘

انھوں نے اس معاملے کی انکوائری کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ اگر مجھے بھی تفتیش کے لیے طلب کیا گیا تو میں بھی جاؤں گا۔

مراد علی شاہ نے کہا: ’ملک کے لیے ضروری ہے کہ جلد سے جلد پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہو اور آئینی طریقے سے ملک میں جمہوریت آئے۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں