آسٹریا: کرد سیاستدان کے قتل کا منصوبہ ناکام، ترک خفیہ ایجنسی کا اہلکار گرفتار

ویانا (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے ) آسٹرین سیاستدان بیریوان اسلان اب صرف پولیس کی حفاظت میں ہی اپنے گھر سے باہر نکلتی ہیں۔ گزشتہ ماہ گرفتار کیا گیا ایک مشتبہ ملزم اعتراف کر چکا ہے کہ اسے اسلان کو قتل کرنے کا حکم مبینہ طور پر ترک خفیہ ادارے نے دیا تھا۔

بیریوان اسلان نسلی طور پر ایک کرد نژاد خاتون ہیں، جو یورپی ملک آسٹریا کی شہری ہونے کے علاوہ آسٹرین ماحول پسندوں کی سیاسی جماعت گرین پارٹی کی ایک سرکردہ سیاستدان بھی ہیں۔ اسلان ترک حکومت کی ناقد بھی ہیں اور انہیں کئی بار نامعلوم افراد ٹیلی فون پر دھمکیاں بھی دے چکے ہیں۔

بیریوان اسلان کے لیے یہ بھی کوئی نئی بات نہیں کہ ترک قوم پسند جب اپنی احتجاجی ریلیاں نکالتے ہیں، تو ان میں سے کئی نے ایسے پلے کارڈز بھی اٹھائے ہوتے ہیں، جن میں سرخی مائل بھورے رنگ کے بالوں والی ایک خاتون اور اس کے گلے میں پڑے ہوئے پھندے کو دکھایا گیا ہو۔

ایسا کوئی بھی پلے کارڈ دیکھنے والا کوئی بھی شخص جو آسٹریا کی گرین پارٹی کی اس خاتون رہنما کو جانتا ہو، یہ اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے کہ ایسے کسی بھی احتجاجی پلے کارڈ میں بیریوان اسلان ہی کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

بیریوان اسلان کون ہیں؟

کرد نسل کی یہ آسٹرین خاتون سیاستدان 1981ء میں ترکی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہ اس وقت ویانا کی صوبائی پارلیمان کی رکن ہیں اور ماضی میں نیشنل کونسل کی رکن بھی رہ چکی ہیں۔ ان دونوں سیاسی عہدوں پر فائز ہونے والی وہ آسٹریا کی پہلی کرد نژاد خاتون شہری ہیں۔

اب لیکن وہ اپنے گھر سے پولیس کے حفاطتی دستے کے بغیر باہر نہیں نکلتیں۔ ان کے گھر کے باہر بھی ہر وقت آسٹرین پولیس کی کوئی نہ کوئی مسلح خاتون اہلکار تعینات رہتی ہے۔

ایسا کوئی بھی پلے کارڈ دیکھنے والا کوئی بھی شخص جو آسٹریا کی گرین پارٹی کی اس خاتون رہنما کو جانتا ہو، یہ اندازہ آسانی سے لگا سکتا ہے کہ ایسے کسی بھی احتجاجی پلے کارڈ میں بیریوان اسلان ہی کو دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔

آسٹریا کی داخلی انٹیلیجنس کی طرف سے فون کال

بیریوان اسلان کے لیے ان کی معمول کی عوامی زندگی اس وقت کافی حد تک بدل کر رہ گئی، جب چند ہفتے قبل پندرہ ستمبر کو انہیں آسٹریا میں ‘تحفظ آئین اور انسداد دہشت گردی کا وفاقی دفتر‘ (BVT) کہلانے والی داخلی انٹیلیجنس سروس کی طرف سے ایک فون کال موصول ہوئی تھی۔

ملزم نے بتایا تھا کہ اس بیریوان اسلان کے قتل کا حکم تو دیا گیا تھا، لیکن اب اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ اسلان کو قتل کر دیتا، تو بعد میں ‘ثبوت ختم کرنے کے لیے‘ اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔

آسٹرین سیاست میں اسلان کی سیاسی سرگرمیوں کا محور گزشتہ چند سال سے تارکین وطن کا آسٹرین معاشرے میں انضمام بھی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ وہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن کی سیاست جماعت اے کے پی اور دائیں بازو کے ترک انتہا پسندوں کی منظم تحریک ‘گرے وولفز‘ یا ‘سرمئی بھیڑیے‘ کی ترکی سے باہر سرگرمیوں پر بھی نظر رکھتی ہیں۔

آسٹریا کی داخلی انٹیلیجنس کی طرف سے فون کال

بیریوان اسلان کے لیے ان کی معمول کی عوامی زندگی اس وقت کافی حد تک بدل کر رہ گئی، جب چند ہفتے قبل پندرہ ستمبر کو انہیں آسٹریا میں ‘تحفظ آئین اور انسداد دہشت گردی کا وفاقی دفتر‘ (BVT) کہلانے والی داخلی انٹیلیجنس سروس کی طرف سے ایک فون کال موصول ہوئی تھی۔

بی وی ٹی کی طرف سے اسلان کو بتایا گیا کہ اس خفیہ ادارے کے حکام نے ایک ایسے شخص کو حراست میں لیا ہے، جس نے دوران تفتیش اعتراف کیا کہ وہ بیریوان اسلان کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ اس مبینہ ملزم نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ اسے اسلان کو قتل کرنے کا حکم ترکی کے خفیہ ادارے ایم آئی ٹی (MIT) نے دیا تھا۔

مشتبہ ملزم پولیس کے سامنے پیش کیوں ہوا؟

آسٹرین داخلی انٹیلیجنس کے مطابق اس مشتبہ ملزم کا نام فیاض او (Feyyaz Ö) ہے، جو دراصل خود ہی پولیس کے سامنے پیش ہو گیا تھا۔ تب اس مبینہ ملزم نے بتایا تھا، ”میں خود ہی پولیس کے سامنے اس لیے پیش ہوا ہوں، کہ میں اپنی جان بچانا چاہتا ہوں۔‘‘

ملزم نے بتایا تھا کہ اس بیریوان اسلان کے قتل کا حکم تو دیا گیا تھا، لیکن اب اسے خدشہ تھا کہ اگر وہ اسلان کو قتل کر دیتا، تو بعد میں ‘ثبوت ختم کرنے کے لیے‘ اسے بھی قتل کر دیا جاتا۔

یہ ملزم بظاہر اتنا باخبر تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے آسٹرین پولیس کے پاس نہیں گیا تھا، بلکہ ویانا میں ٹھیک اسی جگہ اور اس دفتر میں جا کر اسے نے خود کو حکام کے حوالے کیا، جہاں آسٹرین داخلی انٹیلیجنس کی مقامی شاخ کے اہلکار بیٹھتے ہیں۔

اس اطالوی شہری کے مطابق اسے مبینہ طور پر ترک سیکرٹ سروس نے بیریوان اسلان کے قتل کا حکم اس سال موسم بہار میں دیا تھا۔ لیکن اس دوران وہ ٹانگ پر چوٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہو گیا تھا اور پھر کورونا وائرس کی وبا بھی زوروں پر تھی۔

اس کے مطابق، ”ان دو وجوہات کے باعث مجھے انتظار کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ اب لیکن میرا خیال تھا کہ مجھے کسی بھی وقت فون کر کے کہا جائے گا کہ جو کچھ تمہیں کہا گہا تھا، وہ کر گزرو۔‘‘

ترک سیکرٹ سروس کا تربیت یافتہ شخص

فیاض کی عمر 55 سال ہے اور وہ ایک کرد نژاد اطالوی شہری ہے، جو ماضی میں شمالی مقدونیہ میں بھی مقیم رہا ہے۔ شمالی مقدونیہ میں وہ کچھ عرصہ قبل قتل کے ایک پراسرار واقعے میں بھی ملوث رہا تھا۔ اس کے گھر سے ایک ایسے شخص کی لاش ملی تھی، جسے قتل کسی اور جگہ کیا گیا تھا اور شواہد کے مطابق قاتل بھی فیاض نہیں تھا۔

اس اطالوی کرد شہری نے آسٹرین حکام کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ماضی میں ترک سیکرٹ سروس ایم آئی ٹی کے ماہرین سے باقاعدہ تربیت بھی لے چکا ہے۔ ایک مشتبہ ملزم کے طور پر فیاض اس وقت ویانا میں حکام کی تفتیشی حراست میں ہے۔ اس واقعے اور فیاض کو دیے جانے والے بیریوان اسلان کے قتل کے مبینہ حکم کے بارے میں آسٹرین تفتیشی اہلکار کچھ بھی کہنے پر تیار نہیں ہیں۔

انقرہ کیلئے اس کے نتائج

اس بارے میں جب ڈی ڈبلیو نے آسٹریا کے وفاقی وزیر داخلہ کارل نیہامر سے رابطہ کیا، تو ان کے دفتر کی طرف بیریوان اسلان کی ذات سے متعلق واقعات کا کوئی براہ راست ذکر کیے بغیر صرف اتنا کہا گیا، ”اگر ترکی اور صدر ایردوآن آسٹریا میں جاسوسی اور ایسی سرگرمیوں کا منظم نیٹ ورک قائم کریں گے، تو اس کے نتائج تو نکلیں گے۔‘‘

ویانا میں آسٹرین وزارت داخلہ نے تاہم یہ بھی کہا کہ یہ ممکنہ نتائج کیا اور کیسے ہوں گے، یہ بات ابھی واضح طور پر اور یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں