حوثی باغیوں کے میزائل اور ڈرون حملے ناکام، ترجمان سعودی عرب اتحاد

ریاض (ڈیلی اردو) ایران کے حمایت یافتہ حوثیوں نے سعودی اہداف پر میزائل اور ڈرون حملوں کا سلسلہ تیز کر رکھا ہے۔ یہ بات عرب اتحاد کے ترجمان کرنل ترکی المالکی نے جمعرات کو ’’العربیہ‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہی۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ ’’سعودی بحریہ اور دفاعی افواج اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے باعث ایسے حملے ناکام بنانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ ایران کے حمایت یافتہ دہشت گرد حوثی مارب اور الجوف کے محاذ جنگ میں اپنی مایوس کن کارکردگی کی وجہ سے سعودی اہداف پر میزائل اور ڈرون حملوں میں اضافہ کرتے نظر آ رہے ہیں۔‘‘

عرب اتحاد نے بدھ کو یمن سے ایران کے حمایت یافتہ حوثی شیعہ باغیوں کے سعودی عرب کی جانب داغے گئے ایک بیلسٹک میزائل اور چھے مسلح ڈرونز کو تباہ کیا۔ عرب اتحاد کے مطابق حوثی ملیشیا نے بارود سے لدے ان ڈرونز کے ذریعے سعودی عرب کے شہری علاقوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی تھی جبکہ بیلسٹک میزائل سعودی عرب کے جنوبی شہر جازان کی جانب داغا گیا تھا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’دہشت گرد ملیشیا نے بموں سے لدے بغیر پائیلٹ طیاروں کے ذریعے شہریوں کو نشانہ بنانے کی غرض سے معاندانہ کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ اس کو یمن کی دو گورنریوں مآرب اور الجوف میں بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا ہے، اس کے ردعمل میں اس نے مایوسی کی حالت میں اب سعودی شہریوں کے خلاف ڈرون حملے تیز کر رکھے ہیں۔‘‘

ترکی المالکی کا مزید کہنا تھا کہ حوثیوں کے زیر قبضہ صنعاء میں ایرانی پاسداران انقلاب کے احکامات دوٹوک اور واضح ہیں۔ ان کے مطابق حوثی ملیشیا، القاعدہ اور داعش کے درمیان تعلق واضح ہے۔‘‘

عرب اتحاد کے ترجمان ترکی المالکی نے ’’العربیہ‘‘ کو بتایا کہ سعودی عرب کی قیادت میں کئی ملکوں پر مشتمل عرب اتحاد بین الاقوامی قانون جنگ کے مطابق کام کر رہا ہے۔ ہم یمنی تنازع کو سیاسی عمل کے ذریعے حل کرانے میں یقین رکھتے ہیں۔‘‘

انھوں نے خبردار کیا کہ ’’اگر عام شہریوں کو گزند پہنچایا گیا تو پھر ہم حوثیوں سے نپٹنے میں ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو سکتا ہے۔‘

خیال رہے کہ سعودی عرب کی قیادت والی اتحادی فورس نے مارچ 2015 میں یمن میں اس وقت مداخلت کی تھی جب حوثیوں نے سعودی حمایت یافتہ اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ یمنی حکومت کو 2014 کے اواخر میں معزول کردیا تھا۔

یمن کے بیشتر بڑے شہروں پر حوثیوں کا قبضہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بدعنوان نظام کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ نے حال ہی میں متحارب فریقین کے درمیان مستقل جنگ بندی اور اعتماد سازی کے اقدامات کے لیے بات چیت شروع کی تھی تاکہ امن مساعی کا آغاز کیا جاسکے۔ تاہم جنگ بندی کی مدت ختم ہوجانے کی وجہ سے تشدد میں اضافہ ہونے سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوگیا ہے۔ اس جنگ میں اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اقوام متحدہ کے مطابق یہ دنیا کا سب سے بڑا انسانی بحران بن چکا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں