فیض آباد: تحریک لبیک کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری، پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں

اسلام آباد (ڈیلی اردو) وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی کے سنگم پر واقعے فیض آباد چوک پر مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کا دھرنا دوسرے روز بھی جاری رہا جس کی وجہ سے جڑواں شہروں میں موبائل فون سروس بحال نہ ہوسکی ،سڑکوں پر رکاوٹیں کھڑی ہونے سے بھی شہریوں کو مشکلات کا سامنا کر نا پڑا۔

تفصیلات کے مطابق تحریک لبیک کے ڈنڈا بردار کارکنوں نے فیض آباد کے قریبی ہوٹلوں اور فیض آباد پل کے نیچے رات گزاری اور رات بھر پولیس اور مظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری رہا۔ جماعت کے سربراہ خادم رضوی اتوار کو ہونے والی ریلی میں تو شریک نہیں تھے تاہم اب وہ دھرنے کے مقام پر موجود ہیں۔

مشتعل مظاہرین اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتے رہے ، پولیس کی جانب سے تحریک لبیک کے کارکنوں کو روکنے کے لیے شیلنگ کی گئی۔جڑواں شہروں میں گزشتہ روز بند ہونے والی میٹرو بس اور موبائل فون سروس دوسرے روز بھی بحال نا ہوسکی جبکہ فیض آباد کی صورتحال کے بعد راولپنڈی اندرون شہر کنٹینرز اور رکاوٹیں بدستور موجود رہیں جن کے باعث ائیر پورٹ اور ریلوے اسٹیشن جانے والے مسافروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

سرکاری و نجی ملازمین اور خواتین کو دفاتر پہنچنے کے لیے کئی کئی کلومیٹر پیدل چلنا پڑا ۔دوسری جانب مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جس کے نتیجے میں علاقہ میدان جنگ بن گیا۔

پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے اور اذگے بڑھنے سے روکنے کے لیے شدید شیلنگ کی گئی اور ربڑ کی گولیاں بھی چلائی گئیں جس کے جواب میں ٹی ایل پی کارکنوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا۔ زخمیوں میں ٹی ایل پی کے کارکن اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں۔

مقامی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ریلی میں شریک مظاہرین نے نہ صرف مری روڑ پر واقع دکانوں میں توڑ پھوڑ اور لوٹ مار کی بلکہ وہاں پر موجود پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ بھی کیا تھا۔ راولپنڈی پولیس نے 200 سے زیادہ مظاہرین کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

اس ریلی اور دھرنے کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں بھی ہوئیں جن میں درجنوں افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ زخمیوں میں ٹی ایل پی کے کارکن اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں۔

ریلی کی کوریج کیلئے آنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ پولیس اور مظاہرین کی جانب سے صحافیوں کو تصاویر اور ویڈیوز بنانے سے روکا جا رہا ہے جبکہ ’موبائل سروس بند ہونے کی وجہ سے مشکلات ہیں۔‘

ادھر مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ فرانس کے سفیر کو ملک بدر کیا جائے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں