ایران کا اپنے جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کا ’بدلہ‘ لینے کا اعلان

تہران (ڈیلی اردو/بی بی سی) ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے سینیئر جوہری سائنسدان محسن فخری زادہ کی ہلاکت کا بدلہ لے گا۔

محسن فخری زادہ پر جمعے کو دماوند کے علاقے ابسرد میں حملہ کیا گیا تھا جس کے بعد وہ ہسپتال میں ہلاک ہوگئے تھے۔

ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کے عسکری مشیر حسین دیغان نے کہا کہ وہ اس حملے کے مرتکب افراد پر طوفان کی طرح ‘چوٹ’ پہنچائیں گے۔

مغربی انٹیلیجنس اداروں کا خیال ہے کہ فخری زادہ ایران کے خفیہ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے روحِ رواں تھے اور کئی ممالک کے سفارتکار انھیں ’ایران کے بم کا باپ‘ بھی کہتے تھے۔

ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پُرامن مقاصد کے لیے ہے۔

اقوامِ متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے کہا کہ یہ قتل بین الاقوامی قوانین کی واضح خلاف ورزی ہے اور اس کا مقصد خطے میں افراتفری پھیلانا ہے۔

ایران کے وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے اسے ایک ’ریاستی دہشتگردی‘ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا ہے کہ اس میں اسرائیل کے ملوث ہونے کے ’اشارے‘ ہیں۔

ایک ٹویٹ میں ان کا کہنا ہے کہ ’اس بزدلانہ (کارروائی) سے، جس میں اسرائیل کے کردار کے اشارے ہیں، یہ نظر آتا ہے کہ اس کے مرتکب جنگ کے لیے کتنے بے تاب ہیں۔‘

انھوں نے بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ’ریاستی دہشت گردی کے اس عمل‘ کی مذمت کرے۔

اپریل 2018 میں ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کی ایک پریزینٹیشن میں فخری زادہ کا نام بالخصوص پیش کیا گیا تھا۔

قتل کی خبر پر ابھی تک اسرائیل سے کوئی بیان نہیں آیا ہے۔

ایران کی حکومت نے فخری زادہ کی ’شہادت‘ پر انھیں مبارکباد دی ہے۔

ان کی موت کی خبر ایک ایسے وقت پر آئی ہے جب یہ تشویش ظاہر کی جا رہی ہے کہ ایران زیادہ مقدار میں یورینیئم افزودہ کر رہا ہے۔ یورینیئم کی افزودگی سول نیوکلیئر پاور جنریشن اور ملٹری جوہری اسلحے کے لیے اہم جُزو ہے۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ جان برینن نے کہا کہ سائنسدان کا قتل ‘مجرمانہ’ اور ‘انتہائی غیر ذمہ دارانہ’ عمل ہے جو خطے میں تنازعے کو ہوا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔

انھوں نے اپنی سلسلہ وار ٹویٹس میں کہا کہ فخری زادہ کے قتل سے ‘ہلاکت خیز ردِعمل اور علاقائی تنازعے کے ایک نئے مرحلے’ کا خطرہ ہے۔

جان برینن نے مزید کہا کہ وہ نہیں جانتے کہ ’آیا کسی غیر ملکی حکومت نے فخری زادہ کی ہلاکت کی اجازت دی یا انھیں ہلاک کیا۔‘

سنہ 2015 میں ایران کے ساتھ چھ عالمی طاقتوں نے ایران پر یورینیئم کی افزودگی کی حد مقرر کی تھی مگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2018 میں اس معاہدے سے امریکہ کو یہ کہتے ہوئے نکال لیا تھا کہ ایران جان بوجھ کر معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔

نو منتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ جب وہ جنوری میں صدارت کا عہدہ سنبھالیں گے تو ایران کے ساتھ دوبارہ مذاکرات کریں گے۔

محسن فخری زادہ کے ساتھ کیا ہوا؟

ایران کی خبر رساں ایجنسی کے مطابق حملہ آوروں نے پہلے بم چلایا اور اس کے بعد فخری زادے کی کار پر فائرنگ شروع کر دی۔

ایران کی وزارتِ دفاع کے مطابق جمعے کو ’مسلح دہشت گردوں نے وزارت کے ریسرچ اینڈ انوویشن آرگنائزیشن کے سربراہ محسن فخری زادہ کو لے کر جانے والی گاڑی کو نشانہ بنایا۔ دہشت گردوں اور ان کے محافظوں کے درمیان جھڑپ کے دوران فخری زادہ شدید زخمی ہو گئے اور انھیں ہسپتال لے جایا گیا۔

’بدقسمتی سے طبی ٹیم کی ان کو بچانے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور چند منٹوں پہلے وہ ہلاک ہو گئے۔‘

فارس نیوز ایجنسی نے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ ابسرد کے شہر میں مصطفیٰ خمینی بلیوارڈ پر کار دھماکہ ہوا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ عینی شاہدین کے مطابق ’تین سے چار افراد، جن کو دہشت گرد کہا گیا تھا، واقعے میں ہلاک ہو گئے تھے۔ فارس نیوز نے کہا تھا کہ سکیورٹی فورسز نے اس خبر کی تصدیق کی ہے۔

پاسداران انقلاب کے کمانڈر نے کہا ہے کہ وہ ایرانی سائنسدان کے قتل کا بدلہ لیں گے جیسے ماضی میں لیتے رہے ہیں۔

میجر جنرل حسین سلامی نے کہا کہ جوہری سائنسدانوں کا قتل جدید سائنسوں تک ہماری رسائی روکنے کے لیے عالمی بالادستی کی سب سے واضح خلاف ورزی ہے۔

فخری زادے حملے میں زخمی ہوئے اور پھر ہسپتال میں دم توڑ گئے۔

محسن فخری زادہ کون تھے؟

فخری زادہ ایران کے نامور جوہری سائنسدان تھے اور پاسداران انقلاب اسلامی کے ایک سینیئر افسر تھے۔

مغربی سکیورٹی ذرائع انھیں انتہائی بااثر اور ایران کے جوہری پروگرام کے اہم معاون کار سمجھتے تھے۔

2018 کو اسرائیل کو حاصل ہونے والی ایک اہم دستاویز کے مطابق وہ جوہری اسلحہ بنانے کے پروگرام کے سربراہ تھے۔

سنہ 2015 میں نیو یارک ٹائمز نے ان کا موازنہ جے رابرٹ اوپن ہائیمر سے کیا تھا، اوپن ہائیمر وہ ماہر طبیعات تھے جنھوں نے امریکہ کے مین ہیٹن پراجیکٹ کی منصوبہ بندی کی تھی جس کے ذریعے دوسری جنگِ عظیم کے دوران پہلے جوہری ہتھیار بنائے تھے۔

ایران کے حزبِ اختلاف کے گروہ این سی آر آئی کی 2011 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق فخری زادہ 1958 میں ایران کے شہر قُم میں پیدا ہوئے تھے۔

کہا جاتا ہے کہ بطور طبیعات کے پروفیسر انھوں نے پراجیکٹ عماد کی سربراہی کی تھی، یہ مبینہ طور پر وہی خفیہ پروگرام ہے جو 1989 میں ممکنہ طور پر جوہری بم بنانے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل اٹامک اینرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) کے مطابق یہ پروگرام 2003 میں بند کر دیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ سنہ 2010 سے 2012 کے درمیان چار ایرانی سائنسدانوں کو قتل کیا گیا تھا اور ایران ان کے قتل میں اسرائیل کے ملوث ہونے کا الزام لگاتا رہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں