امریکی سرکاری محکموں پر طاقتور سائبر حملے

واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے پی/اے ایف پی/روئٹرز) تفتیش کاروں نے الزام عائد کیا ہے کہ امریکی حکومت کے ان اداروں پر اس بڑے سائبر حملے میں روس کا ہاتھ ہے اورہیکرز نے ایک آئی ٹی کمپنی سے بھیجے گئے سافٹ ویئراپ ڈیٹ کے ذریعہ نقب لگائی۔

امریکا کا کہنا ہے کہ ہیکرز نے وزارت خزانہ اور محکمہ کامرس سمیت کم از کم دو وفاقی محکموں کو زبردست سائبر حملے کا نشانہ بنایا ہے۔ یہ انکشاف ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کچھ روز قبل ہی امریکی حکام نے تنبیہ کی تھی کہ روسی حکومت سے وابستہ سائبر ہیکرز حساس اعداد و شمار کو نشانہ بنانے کے لیے آسان اہداف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

امریکی محکمہ تفتیش،ایف بی آئی اور داخلی سلامتی کا سائبر سکیورٹی ڈویزن اس سائبر حملے کی تفتیش کررہا ہے۔

نیشنل سکیورٹی کونسل کے ترجمان جون الیاٹ نے کہا، ”امریکی حکومت ان خبروں سے واقف ہے اور ہم اس صورت حال سے پیدا ہونے والے ممکنہ مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کررہے ہیں۔“

سائبر سکیورٹی کے ماہر دمتری الپروویچ کا کہنا تھا کہ”یہ اب تک کے معلوم سنگین ترین جاسوسی کی مہموں میں سے ایک ثابت ہوسکتا ہی۔“

آئی ٹی کے ذریعہ رسائی

امریکی محکمہ خزانہ اور محکمہ کامرس میں ہیکنگ کی یہ خبریں ایسے وقت پر سامنے آئیں ہیں جب چند دنوں قبل ہی سائبر سکیورٹی کی ایک بڑی کمپنی نے اپنے نیٹ ورک میں کسی غیر ملکی حکومت کے ہیکرز کی نقب زنی اور معلومات کی چوری کا انکشاف کیا تھا۔

سائبرسکیورٹی کمپنی فائر آئی کا کہنا تھا کہ غیر ملکی ہیکروں نے اس کے نیٹ ورک میں نقب لگا کر کمپنی کے اپنے ہیکنگ ٹولز چرالیے تھے۔ اس کمپنی کو سولر ونڈز نیٹ ورک مینجمنٹ سسٹم کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا تھا۔

سولرونڈز نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کو بتایا تھاکہ اس بات کا امکان ہے کہ اس سال کے اوائل میں اس کے ذریعہ جاری کردہ اپ ڈیٹس کو ہیکنگ کے لیے استعمال کیا گیا ہو۔ کمپنی نے اس بات کی تصدیق نہیں کہ آیا امریکی محکمہ خزانہ کو بھی اسی کے ذریعہ نشانہ بنایا گیا، تاہم اس معاملے کی تفتیش سے وابستہ دو افراد کا کہنا ہے کہ کمپنی نے جو چینل فراہم کیے تھے ہوسکتا ہے کہ انہیں کے ذریعہ ہیکرز نے رسائی حاصل کی ہو۔

سولر ونڈز کے فراہم کردہ سافٹ ویئر دنیا بھر میں ہزاروں ادارے استعمال کرتے ہیں۔ سولر ونڈز نے اپنی ویب سائٹ پر بتایا ہے کہ اس کے سافٹ ویئر استعمال کرنے والوں میں امریکا کی فورچون 500 کی بیشتر کمپنیاں، ملک میں ٹیلی کمیونیکیشن فراہم کرنے والی چوٹی کی تمام دس کمپنیاں، فوج کی تمام شاخیں، محکمہ خارجہ، قومی سلامتی ایجنسی (این ایس اے) اور صدر امریکا کا دفتر شامل ہے۔

این ایس اے کے سابق ہیکر جیک ولیمزکا کہنا تھا کہ یہ بات بظاہر واضح معلوم پڑتی ہے کہ امریکی محکمہ خزانہ اور فائر آئی دونوں، ایک کی طرح کی خامیوں کی وجہ سے ہیکنگ کا شکار ہوئے۔

ولیمز کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ ہیکنگ صرف محکمہ خزانہ اور محکمہ کامرس تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ دیگر ادارے بھی اس کی زد میں آچکے ہوں گے۔ انہوں نے کہا”مجھے لگتا ہے کہ متعدد دیگر وفاقی ایجنسیاں بھی نشانہ بن چکی ہوں گی اور ہمیں اس ہفتے میں اس کے بارے میں سننے کو ملنے لگے گا۔“

ولیمز کا مزید کہنا تھا کہ ان کے خیال میں یہ ہیکنگ صرف محکمہ خزانہ اور محکمہ کامرس تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ دیگر ادارے بھی اس کی زد میں آچکے ہوں گے۔ انہوں نے کہا”مجھے لگتا ہے کہ متعدد دیگر وفاقی ایجنسیاں بھی نشانہ بن چکی ہوں گی اور ہمیں اس ہفتے میں اس کے بارے میں سننے کو ملنے لگے گا۔“

ممکنہ غیر ملکی ہاتھ

سائبر حملے کی تفتیش میں شامل ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ ہیکنگ کی یہ کارروائی کسی ’ملک‘ نے انجام دی ہے اور ہیکرز نے ‘انتہائی جدید‘ آلات کا استعمال کیا ہے۔

یہ حملہ ایسے وقت کیا گیا ہے جب چند دن قبل ہی امریکی حکام نے متنبہ کیا تھا کہ روسی حکومت سے وابستہ عناصر وفاقی حکومت کے اداروں کی خامیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکا کے حساس ڈیٹا کو نشانہ بنارہے ہیں۔ ہیکنگ کی تفتیش میں شامل تین افراد کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ہیکنگ کے اس واقعے کے پیچھے روس کا ہاتھ ہے۔

سائبر سکیورٹی اور انفرا اسٹرکچر سکیورٹی ایجنسی (سی آئی ایس اے) کے سابق ڈائریکٹر کرس کریبز نے اتوار کے روز ٹوئٹ کرکے کہا، ”اس طرح کی ہیکنگ کے لیے غیر معمولی مہارت اور وقت درکار ہوتا ہے اور امکان ہے کہ اس کی تیاری مہینوں سے چل رہی تھی۔“ کریبزکا کہنا تھا کہ”ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔”

اس سے قبل سن 2014 میں روس سے منسلک ہیکرز امریکی محکمہ خارجہ کے ای میل سسٹم کو توڑنے میں کامیاب ہوگئے تھے جس کے باعث محکمہ خارجہ کو انٹرنیٹ سے اس وقت تک مکمل طور پر منقطع کرنا پڑا تھا جب تک ماہرین اس مسئلے پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوئے۔

امریکا میں روسی سفارت خانے نے اتوار کے دیر رات ایک فیس بک پوسٹ کے ذریعہ کسی بھی طرح کی غلط اقدام کی تردید کی۔اس نے کہا کہ امریکی میڈیا ”امریکا کے حکومتی اداروں پر ہیکروں کے حملوں کے لیے روس کو غیر ضروری طورپر مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کررہی ہے ۔“

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ”روس سائبر کے شعبے میں اس طرح کے حملے کی کوئی کارروائی نہیں کرتا ہے۔ روس نے امریکا کے ساتھ باہمی اور کثیر سطحی سائبر سکیورٹی معاہدے کررکھے ہیں لیکن امریکا کے ساتھ تعمیری اور مساوی مذاکرات شروع کرنے کی تجویز پر واشنگٹن کے جواب کا ہنوز انتظار ہے۔“

ٹرمپ انتظامیہ نے بھی روس پر اس ہیکنگ کا باضابطہ الزام عائد نہیں کیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان الیاٹ نے ایک بیان میں کہا کہ حکومت ”اس صورت حال سے متعلق کسی بھی ممکنہ مسائل کی نشاندہی اور روک تھام کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھا رہی ہے۔“

خیال رہے کہ یہ ہیکنگ انتہائی حساس وقت میں کئی گئی ہے جب بہت سے ممالک کووڈ۔19کی ویکسین تقسیم کرنے کا کام شروع کررہے ہیں اور حالیہ ہفتوں کے دوران ویکسین سے متعلق ہیکنگ کے کئی مشتبہ کیسز سامنے آچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں