عراق: امریکی سفارت خانے پر ہفتے میں تیسرا حملہ

بغداد + واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی ڈبلیو/اے ایف پی/روئٹرز) عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے کو راکٹوں سے ایک بار پھر نشانہ بنا یا گیا ہے۔ گزشتہ ایک ہفتے میں امریکی فوجی اور سفارتی تنصیبات پر اس نوعیت کا یہ تیسرا حملہ ہے۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں عسکریت پسندوں نے پیر کے روز انتہائی سکیورٹی والے گرین زون علاقے میں کئی راکٹ فائر کیے۔ امریکا اور دیگر بیرونی ممالک کے سفارت خانے بغداد کے گرین زون علاقے میں ہی واقع ہیں۔

عراق کے دارالحکومت بغداد میں عسکریت پسندوں نے پیر کے روز انتہائی سکیورٹی والے گرین زون علاقے میں کئی راکٹ فائر کیے۔ امریکا اور دیگر بیرونی ممالک کے سفارت خانے بغداد کے گرین زون علاقے میں ہی واقع ہیں۔

عراقی سکیورٹی سروسز کے ایک سینیئر اہل کار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ایک راکٹ امریکی سفارت خانے کے پاس واقع ‘نیشنل سکیورٹی سروس’ کے ہیڈ کوراٹر پر آ کر گرا۔

امریکی مذمت

واشنگٹن میں ایک پریس کانفرنس کے دوران وزارت خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ان حملوں کی مذمت کی۔گر چہ ابھی تک کسی بھی گروپ نے ان حملوں کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم امریکا نے بظاہر اس کے لیے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاء کو ذمہ ٹھہرایا۔

نیڈ پرائس کا کہنا تھا، ”ہم ان سرگرمیوں کے لیے ایران کو ذمہ دار مانتے ہیں کیونکہ اس کے در پردہ ساتھی امریکا کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ ہم اس پر جوابی کارروائی کر کے کشیدگی میں اضافہ نہیں چاہتے ہیں، کیونکہ یہ ایران کے ہاتھ میں کھیلنے کے مترادف ہوگا جو عراق کو مزید غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے اور یہ اس میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔”

سلسلہ وار حملے

ایک ہفتے قبل ہی شمالی عراق کے اربیل میں ہوائی اڈے کے پاس واقع ایک عسکری عمارت کو ایک درجن سے بھی زیادہ راکٹ حملوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس عمارت میں امریکا کی قیادت والے فوجی اتحاد میں شامل بیرونی ممالک کے فوجی قیام کرتے ہیں۔اس حملے میں ایک بیرونی کانٹریکٹر سمیت دو شہری ہلاک جبکہ متعدد زخمی ہوئے تھے۔

سنیچر کے روز شمالی بغداد کے البلاد فوجی ایئر بیس پر بھی ایک راکٹ آکر گرا تھا۔ عراق امریکا سے خریدے گئے اپنے ایف 16 جنگی طیارے اسی عسکری بیس پر رکھتا ہے۔ سکیورٹی ذرائع کے مطابق اس حملے میں ایک مقامی کانٹریکٹر زخمی ہوا تھا جسے ان جنگی طیاروں کی دیکھ بھال کے لیے وہاں تعینات کیا گیا تھا۔

امریکا کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی اس بات کا پتہ لگانے کی کوشش میں ہے کہ آخر اس حملے کے پیچھے کس گروپ کا ہاتھ ہو سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں