عمران خان کا دورہ: سری لنکا میں کورونا سے ہلاک مسلمانوں کی تدفین کی اجازت، نوٹیفیکشن جاری

کولمبو (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) سری لنکا نے اپنے ہاں کورونا وائرس کے انتقال کر جانے والے مریضوں کی میتوں کو زبردستی نذر آتش کرنا بند کر دیا ہے۔ وہاں مسلمانوں کی میتیں بھی جلائی جا رہی تھیں۔ یہ عمل پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورے کے بعد روکا گیا۔

کولمبو میں ملکی وزیر صحت پاوترا وانیاراچھی نے آج جمعہ چھبیس فروری کے روز بتایا کہ حکومت نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران کووڈ انیس کے ہاتھوں انتقال کر جانے والے مریضوں کی لاشوں کو زبردستی جلانے کا عمل روک دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

ایسے مریضوں کا تعلق چاہے کسی بھی مذہب سے ہو، ان سب کی میتیں حکومتی پالیسی کے تحت لازمی طور پر جلا دی جاتی تھیں۔ ان میں مسلمان مریض بھی ہوتے تھے حالانکہ اسلامی طور پر کسی بھی میت کو نذر آتش کرنے کے بجائے اس کی تدفین کی جانا چاہیے۔

پاکستانی وزیر اعظم کی سری لنکا سے درخواست

حال ہی میں سری لنکا کا دورہ کرنے والے پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کولمبو حکومت سے درخواست کی تھی کہ وہ کورونا کے انتقال کر جانے والے مسلمان مریضوں کی میتوں کو جلانا بند کر دے اور اس جزیرہ ریاست کی مسلم اقلیتی آبادی کے افراد کی آخری رسومات کے سلسلے میں مسلم مذہبی روایات کا احترام کیا جانا چاہیے۔

سری لنکا کی خاتون وزیر صحت نے اگرچہ نئے حکومتی فیصلے کی کوئی وجہ بیان نہیں کی تاہم سرکاری ذرائع نے تصدیق کی کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اسی ہفتے سری لنکن صدر گوتابایا راجا پاکشے اور وزیر اعظم مہیندا راجاپ اکشے کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا۔

عمران خان کی طرف سے اظہار تشکر

کولمبو حکومت کے کورونا کے مریضوں کی لاشوں کو زبردستی جلانے کی پالیسی ختم کرنے کے اعلان کے بعد پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے اپنے سری لنکن ہم منصب کا شکریہ ادا کیا ہے۔

عمران خان نے ٹوئٹر پر اپنے ایک پیغام میں لکھا، ”میں سری لنکا کی حکومت کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتا ہوں کہ اب کووڈ انیس کی وجہ سے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری رسومات کے لیے ان کی لاشوں کی تدفین بھی ایک راستہ ہو گا۔‘‘

خیال رہے کہ 10 فروری کو سری لنکا کے وزیراعظم راجا پاکسے نے کورونا سے ہلاک مسلمانوں کی تدفین کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا جس پر وزیراعظم عمران خان نے ٹوئٹ کرکے ان کے فیصلے کو سراہا تھا تاہم بعد ازاں حکام نے کہا تھا کہ کورونا سے ہلاک افراد کی میتوں کو جلانے کی پالیسی جاری رہے گی۔

خیال رہے کہ مقامی مسلمان کورونا سے ہلاک ہونے والے مسلمانوں کی میتوں کو جلانے کی حکومتی پالیسی کے خلاف کئی کافی عرصے سے احتجاج کررہے ہیں۔

تدفین پر پابندی کی وجوہات

سری لنکا نے اپنے ہاں کورونا کی وبا کے دوران اس مرض کے باعث انتقال کر جانے والے مریضوں کی تدفین پر پابندی گزشتہ برس اپریل میں لگائی تھی۔ اس کی وجہ وہ خدشات بنے تھے، جنہیں ماہرین نے بےبنیاد قرار دیا تھا۔

ان خدشات کا سبب ملک کی اکثریتی بودھ آبادی کی نمائندہ مذہبی شخصیات کا یہ موقف تھا کہ کورونا کے مریضوں کی لاشوں کی تدفین سے زیر زمین پانی آلودہ ہو سکتا ہے اور یوں یہ وائرس مزید پھیل سکتا ہے۔

مسلم اقلیت کی طرف سے مذمت

کورونا کے تمام مریضوں کی لاشیں زبردستی جلائے جانے کی حکومتی پالیسی کی 21 ملین کی آبادی والے اس جنوبی ایشیائی ملک کی مسلم اقلیت نے شدید مذمت کی تھی۔ سری لنکا میں مسلمان ملکی آبادی کا تقریباﹰ دس فیصد بنتے ہیں۔

اس پس منظر میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے دورہ سری لنکا کے موقع پر درجنوں مسلمان مظاہرین نے اس مقصد کے تحت احتجاج بھی کیا تھا کہ وہ کولمبو حکومت سے اس بارے میں بات کریں کہ وہ مسلمان مریضوں کی آخری رسومات کے حوالے سے اسلامی مذہبی روایات کے عدم احترام کی مرتکب ہو رہی تھی۔

اسلامی ممالک کی تنظیم کا بھی احتجاج

دنیا بھر میں مسلمانوں کے لیے ان کے انتقال کر جانے والے عزیزوں کی اسلامی طریقے سے تدفین چونکہ انتہائی اہم مذہبی معاملہ سمجھی جاتی ہے، اس لیے اسی بارے میں کولمبو حکومت کے گزشتہ فیصلے کی باز گشت اقوام متحدہ تک میں بھی سنائی دی تھی۔

اکثریتی طور پر مسلم آبادی والے دنیا کے 57 ممالک کی نمانئدہ تنظیم برائے اسلامی تعاون (او آئی سی) کی طرف سے بھی اسی ہفتے جنیوا میں اقوام متحدہ میں گہری تشویش کا اظہار کیا گیا تھا کہ کولمبو حکومت کی کورونا کے تمام مریضوں کی لاشوں کو لازمی طور پر نذر آتش کر دینے کی پالیسی غلط تھی۔

نصف سے زائد ہلاک شدگان مسلمان

سری لنکا کی مسلمان برادری کے رہنماؤں کے مطابق اب تک اس ملک میں کووڈ انیس کے باعث جو ساڑھے چار سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ان میں سے نصف سے زائد کا تعلق مسلم اقلیت سے تھا۔

گزشتہ دسمبر میں حکام نے کم از کم 19 ایسے مسلمان ہلاک شدگان کی لاشوں کو جلا دینے کا سرکاری حکم بھی جاری کر دیا تھا، جن میں ایک بچہ بھی شامل تھا اور جن کو لینے کے لیے ان کا کوئی رشتے دار نہیں آیا تھا۔

سری لنکن اقلیتی مسلمان اس وجہ سے بہت خوف زدہ رہتے تھے کہ اگر وہ اس وائرس کا شکار ہو کر انتقال کر گئے، تو ان کی لاشوں کو دفن کرنے کے بجائے جلا دیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں