وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی شہباز گل پر خواتین صحافیوں کی ‘آن لائن ٹرولنگ’ کے الزامات

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) خواتین صحافیوں کے حقوق اور تحفظ کے لیے سرگرم عالمی تنظیم نے پاکستان میں وزیرِ اعظم کے معاونِ خصوصی برائے سیاسی روابط کی جانب سے مبینہ طور پر خواتین صحافیوں کو آن لائن دھمکیاں دینے کے الزامات کی مذمت کی ہے۔

عالمی اتحاد کولیشن فار ویمن ان جرنلزم (سی ایف ڈبلیو آئی جے) کی جانب سے حال ہی میں جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ معاونِ خصوصی شہباز گل کے خلاف خواتین صحافیوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھنے کے علاوہ آن لائن اُنہیں دھمکانے کی بھی کئی شکایات سامنے آئی ہیں۔

عالمی تنظیم کے اس بیان پر وائس آف امریکہ نے متعدد بار ڈاکٹر شہباز گل سے رابطے کی کوشش کی۔ تاہم اُنہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تاہم وزیرِ اعظم پاکستان کی ڈیجیٹل میڈیا ٹیم کے ایک عہدے دار نے ‘وائس آف امریکہ’ کو بتایا کہ آن لائن دھمکیوں کے سدِ باب کے لیے مؤثر حکمتِ عملی اختیار کی جا رہی ہے جس پر حکومتی عہدے دار بھی عمل کریں گے۔

خواتین کی عالمی تنظیم کے بیان میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شہباز گل نے ایک خاتون سیاست دان پلوشہ خان کے گھر کا پتہ ٹوئٹر پر شیئر کر دیا جس کے بعد اُن کے گھر پر حملہ بھی ہوا اور اُنہیں دھمکیاں دی گئیں۔ جب ایک خاتون صحافی بے نظیر شاہ نے شہباز گل کی غلطی کی نشان دہی کی تو اُنہوں نے بے نظیر شاہ کو بھی ڈرایا اور اُن کی مبینہ طور پر تضحیک کی۔

‘سی ایف ڈبلیو آئی جے’ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شہباز گل کے خلاف کارروائی کرے۔

پاکستان کی باہمت خواتین صحافی

‘پہلے بدنام کیا جاتا ہے، پھر آن لائن ٹرولنگ کر کے بے ہودہ زبان استعمال کی جاتی ہے’
وائس آف امریکہ کی جانب سے بھیجے گئے سوالات پر آن لائن دھمکیوں کا شکار ہونے والی ایک صحافی بے نظیر شاہ کا کہنا ہے کہ سب سے پہلے تو اس بارے میں حکومتی اہلکار آپ کو ہدف بناتے ہیں، اور آپ پر مختلف لیبل لگا دیتے ہیں۔

اُن کے بقول “وہ آپ پر دوسرے سیاست دانوں سے رشوت لینے کے الزامات عائد کرتے ہیں یا پھر وہ آپ کو جھوٹی خبر دینے یا تعصب برتنے کے نام دے کر بدنام کرتے ہیں۔ اور پھر دوسرے مرحلے میں گمنام اکاؤنٹس کے ذریعے جو حکومتی جماعت ہی سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ اس صورتِ حال میں آپ کے خلاف بے ہودہ زبان استعمال کرتے ہیں، حتیٰ کے جان سے مارنے کی بھی کھلے عام دھمکیاں دیتے ہیں۔”

انہوں نے بتایا کہ نہ صرف یہ بلکہ سینئر حکومتی اہلکاروں کی جانب سے خواتین صحافیوں کی نجی تصاویر فیس بک سے حاصل کر کے انہیں ہراساں کرنے کے لیے ٹوئٹر پر شیئر کیا گیا۔

اس سوال پر کہ خواتین صحافی ایسے واقعات کی رپورٹ کیوں نہیں کرتی اور اگر کرتی ہیں تو کیا انہیں انصاف ملا؟ بے نظیر شاہ کا کہنا تھا کہ ایسی بہت سی شکایات خواتین صحافیوں، تجزیہ کار اور میڈیا مبصرین کی جانب سے آن لائن ٹرولنگ، ہراسانی اور دیگر جرائم پر درج کرائی گئیں مگر حقیقت میں ان شکایات پر کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس بارے میں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان الیکٹرانک کرائمز ریگولیشن ایکٹ کے تحت آپ ایک ہی شخص یا اکاؤنٹ کے خلاف ایک وقت میں شکایت درج کرا سکتے ہیں۔ لیکن آن لائن ٹرولنگ میں بہت سارے اکاؤنٹس مشترکہ طور پر آپ پر حملے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ جو قانون کے دائرہ کار میں آتے ہی نہیں۔ اور ان کے خیال میں یہ اس قانون کی سب سے بڑی خامی ہے۔

پشاور کی نڈر صحافی خواتین

صحافی اور تجزیہ کار عافیہ سلام کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل فورم کے ذریعے نتائج کی پرواہ کیے بغیر بات کہنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کی جانب سے رائے کا اظہار اور خاص طور پر ایسی رائے کا اظہار جو عمومی رائے کے برخلاف ہو، اس کی برداشت ابھی پیدا نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا میں ایسی خواتین جو اپنی آواز اٹھاتی ہیں، ایک مضبوط رائے رکھتی ہیں۔ ان کی نہ صرف شدید مخالفت کی جاتی ہے بلکہ مخالفت میں اس قدر آگے نکل جاتے ہیں کہ انہیں باقاعدہ ہراسانی اور گالم گلوچ کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔

ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والے ماہرین کے خیال میں ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ قانون کی گرفت میں نہیں آ سکتے۔ جب کہ اگر کوئی ایف آئی اے میں شکایت درج کراتے بھی ہیں تو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہاں بھی تقریباً اسی قسم کی ذہنیت کے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں جو خواتین کی شکایات کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔

عافیہ سلام کے مطابق ایف آئی اے حکام ایسی صورتِ حال میں ازخود کارروائی صرف اسی صورت میں کرتے نظر آتے ہیں جب اُن ریاستی اداروں پر تنقید کی جاتی ہے جو تنقید برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتے۔

‘سوشل میڈیا پر اظہار رائے کیلئے ضابطہ اخلاق تیار کیا جا رہا ہے’

وزیرِ اعظم پاکستان کی ڈیجیٹل میڈیا ٹیم کے اہم رُکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرکت پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ہراساں کیے جانے کی شکایات بڑھی ہیں اور اس مقصد کے لیے حکومت ایک ایسے ضابطۂ اخلاق کی تیاری کر رہی ہے جو سب پر لاگو ہو گا۔

اُن کے بقول اس مقصد کے لیے اتفاقِ رائے کی کوششیں جاری ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضابطۂ اخلاق کو زبردستی نافذ تو نہیں کیا جاسکتا لیکن حکومت کی جانب سے کوشش کی جائے گی کہ کم از کم حکمران جماعت اور اس کے حامیوں کو اس ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد کے لیے قائل کیا جائے۔

تاہم ڈیجیٹل رائٹس سے وابستہ ماہرین ایسے کسی ضابطۂ اخلاق پر عمل درآمد پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہے ہیں۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے اپنی رپورٹ میں بھی اور اس کے ساتھ حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال ہراسانی خاص طور پر خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا ہے۔

‘کولیشن فار ویمن ان جنرلزم’ کا کہنا ہے کہ وہ دنیا بھر میں خواتین صحافیوں کے خلاف تشدد کو دستاویزی شکل دیتے ہیں اور پاکستان ان 92 ممالک میں مستقل طور پر شامل ہے جہاں خواتین صحافیوں کو خطرات کا سامنا ہے۔

اس سے قبل اگست 2020 میں بھی پاکستان کی خواتین صحافیوں نے آن لائن مہم اور ٹرولنگ کے خلاف مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور مسئلے کو حل کرنے کے لیے اپنے مطالبات پیش کیے تھے۔

کولیشن کے مطابق سینیٹ کی کمیٹی میں اس معاملے پر توجہ تو دی گئی لیکن دھمکی کے انداز کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔

‘کولیشن فار ویمن ان جرنلزم’ کا مطالبہ ہے کہ حکومت خواتین صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے مناسب اقدامات کرے اور وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی کو صحافیوں کو لگاتار دھمکیاں دینے پر جوابدہ ٹھہرایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں