بغداد (ڈیلی اردو/وی او ای) مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے عراق کے تاریخی دورے کے دوران اتوار کو شدت پسند گروپ دولتِ اسلامیہ (داعش) کے مظالم سہنے والے مسیحی برادری کے افراد سے ملاقات کی۔
During Pope Francis’s trip, the first ever papal visit to Iraq, he toured four cities, including Mosul, the former Islamic State stronghold where vast areas still lie in ruins, telling Iraqis that 'peace is more powerful than war' https://t.co/LZG4VPSZxk pic.twitter.com/qCGQDUgOHd
— Reuters Pictures (@reuterspictures) March 8, 2021
جمعے کو سخت سیکیورٹی میں عراق پہنچنے والے پوپ فرانسس نے دورے کے آخری روز اتوار کو تاریخی شہر موصل کا بھی دورہ کیا جہاں اُنہوں نے مسیحی برادری سے ملاقات کی۔
پوپ نے جنگ کے دوران تباہ ہونے والے چرچ کے قریب دعائیہ سروس میں بھی شرکت کی۔
Pope Francis defied security fears and the pandemic to visit one of the world’s oldest Christian communities in Iraq https://t.co/rw0exeeTj8 — in pictures pic.twitter.com/n3QQ4XU5xn
— Caribbean disaster???????????????? (@BagalueSunab) March 8, 2021
موصل شہر کا بیشتر حصہ داعش اور سیکیورٹی فورسز کی لڑائی کے باعث ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا تھا۔ البتہ تین سال قبل داعش کو یہاں شکست ہوئی تھی۔
ہفتے کو بین المذاہب تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پوپ فرانسس نے کہا کہ “ہم مذاہب کے ماننے والے اس وقت خاموش نہیں رہ سکتے جب دہشت گردی مذہب کو نشانہ بناتی ہے۔”
“Destroy this temple, and in three days I will raise it up” (Jn 2:19). Jesus was speaking about the temple of his body, and about the Church as well. By the power of his Resurrection he can raise our communities from the ruins left by hatred. #ApostolicJourney #Iraq
— Pope Francis (@Pontifex) March 7, 2021
تمام تر خطرات کے باوجود عراق کے تین روزہ دورے پر آنے والے پوپ فرانسس کے اس دورے کو نہایت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
God can bring peace to this land. We trust in him and, together with all people of good will, we say “no” to terrorism and the manipulation of religion. #ApostolicJourney #Iraq
— Pope Francis (@Pontifex) March 7, 2021
پوپ فرانسس کا کہنا ہے کہ ‘امن کے سفیر’ کے طور پر یہ دورہ کر رہے ہیں جس کا مقصد عراق کی تاریخ اور یہاں بسنے والے مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دینا ہے۔
طاقتور شیعہ رہنما آیت اللہ علی سیستانی سے ملاقات
دورے کے دوران پوپ فرانسس نے ہفتے کو شیعہ مسلمانوں کے اکثریتی ملک عراق کے سب سے طاقتور اور اہم مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی سے عراق کے مقدس شہر نجف میں ملاقات کی۔
Pope Francis discusses safety of Iraq's Christians with one of Shia Islam's most powerful figures, on landmark trip to the country https://t.co/zSeX4XzpdT
— BBC News (World) (@BBCWorld) March 6, 2021
ملاقات کے دوران آیت اللہ سیستانی نے کہا کہ عراق میں بسنے والے مسیحیوں کو بھی امن کے ساتھ جینے کا حق ملنا چاہیے۔
چار کروڑ آبادی والے مسلم اکثریتی ملک عراق میں 2003 کی جنگ سے قبل 15 لاکھ کے لگ بھگ مسیحی آباد تھے۔ تاہم گزشتہ کئی سالوں سے جاری جنگ و جدل اور بد امنی کے باعث اب یہ تعداد کم ہو کر صرف چار لاکھ رہ گئی ہے جو مجموعی ملکی آبادی کا صرف ایک فی صد ہے۔
2014 میں امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کی جانب سے داعش کو شکست دینے کے اعلان کے بعد پوپ فرانسس نے کہا تھا کہ وہ بے گھر افراد اور جنگ سے متاثرہ افراد سے ملاقات کے لیے عراق آئیں گے۔
البتہ، اتوار کو شمالی کرد میں کچھ دیر قیام کے بعد پوپ نے موصل کے تاریخی شہر کا دورہ کیا اور وہاں جنگ کے دوران تباہ ہونے والے کیتھولک چرچ میں دعا کرائی اور جنگ سے متاثرہ افراد سے ملاقات کے علاوہ شہر کی تعمیرِ نو کا بھی جائزہ لیا۔
The Pope arrives in #Mosul pic.twitter.com/nyc8ZWRovB
— Bel Trew (@Beltrew) March 7, 2021
دورے کے دوران پوپ فرانسس مشرقی شہر قراقوش کا بھی دورہ کریں گے جس کا شمار عراق کے قدیمی مسیحی علاقوں میں ہوتا ہے۔ یہ علاقہ 2014 میں جنگ کے دوران تقریباً تباہ ہو گیا تھا اور لوگ یہاں سے نقل مکانی کر گئے تھے۔ تاہم اب یہاں بحالی کا کام جاری ہے۔
Pray for Pope Francis as he visits Iraq today! #PopeInIraq pic.twitter.com/RAd48suXf1
— U.S. Conference of Catholic Bishops (@USCCB) March 5, 2021
پوپ فرانسس تین روزہ دورۂ عراق پر جمعے کو پہنچے تھے جہاں اُنہوں نے عراقی وزیرِ اعظم سمیت دیگر حکام سے بھی ملاقاتیں کی تھیں۔
پوپ کے دورے کے دوران سیکیورٹی کے لیے ہزاروں افراد کو تعینات کیا گیا تھا جب کہ ملک کے طول و عرض میں سفر کے دوران اُنہوں نے بکتر بند گاڑیوں، ہیلی کاپٹرز اور بلٹ پروف گاڑیوں کا استعمال کیا۔