ميانمار ميں فوجی بغاوت: احتجاج کی کوریج پر 5 صحافیوں پر فرد جرم عائد

ینگون (ڈیلی اردو) میانمار کی عدالت نے فوجی بغاوت مخالف مظاہروں کی کوریج پر امریکی خبر رساں ادارے اے پی کے ایک فوٹو گرافر سمیت 5 صحافیوں پر باضابطہ طور پر فرد جرم عائد کردی۔

https://twitter.com/Calypso050616/status/1369938434152935426?s=19

واضح رہے کہ ایک ہفتے قبل میانمار کی فوج نے نیوز رومز پر چھاپے مارے تھے اور میڈیا لائسنس منسوخ کیے تھے۔

رپورٹس کے مطابق یکم فروری کو ملک میں عوامی رہنما آنگ سان سوچی کی منتخب حکومت کے خلاف بغاوت اور انہیں اقتدار سے بے دخل کرنے کے بعد سے احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں اور ہزاروں افراد جمہوریت کی واپسی کے مطالبے کے ساتھ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

گذشتہ ماہ ینگون میں بغاوت مخالف مظاہرے کا احاطہ کرنے والے پانچ صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا اور انہیں ‘خوف پیدا کرنے، جھوٹی خبریں پھیلانے یا براہ راست یا بالواسطہ کسی سرکاری ملازم کو مشتعل کرنے’ کے الزامات کا سامنا ہے۔

میانمار کی فوجی جنتا نے بغاوت کے بعد قانون میں ترمیم کی تھی جس میں زیادہ سے زیادہ سزا دو سال سے بڑھا کر تین سال تک کردی گئی تھی۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران پانچوں صحافی ویڈیو کانفرنس کے ذریعے موجود تھے جن پر باضابطہ طور پر الزام لگایا گیا جبکہ امریکی سفارتخانے کے نمائندے عدالت کے باہر انتظار کرتے رہے۔

ایک صحافی تھین زاؤ ایسوسی ایٹ پریس (اے پی) کے فوٹوگرافر تھے۔

ان کے بھائی نے سماعت کے بعد اے ایف پی کو بتایا کہ انہیں ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مدعا علیہ سے ملنے کے لیے اندر جانے کی اجازت ملی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں دو منٹ تک بات کرنے کا موقع ملا، تھین زاؤ آنسوؤں میں تھے’۔

انہوں نے کہا کہ ‘تھین زاؤ نے بتایا ہے کہ وہ اندر اب تک خیریت سے ہیں اور ان کے بارے میں زیادہ فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور ان کی صحت ٹھیک ہے’۔

چار دیگر افراد میانمار کی فوٹو ایجنسی 7 ڈے نیوز، زی کیویٹ آن لائن نیوز، اور ایک فری لانسر ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں