پاکستان میں مسلک کی بنیاد پر نئے مدارس بورڈز کیوں بنائے گئے ہیں؟

کراچی (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان میں حال ہی میں حکومتی سرپرستی میں مسالک کی بنیاد پر پانچ نئے مدارس بورڈز کے قیام کی منظوری دی گئی ہے جس کے بعد یہ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ مسلک کی بنیاد پر نئے مدارس بورڈز قائم کرنے کی آخر کیوں ضرورت پیش آئی؟

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ سالہا سال سے سرگرم پرانے مدارس بورڈز کی اجارہ داری ختم کر کے متوازی بورڈ کے قیام کا مقصد مدارس اصلاحات اور انہیں قومی دھارے میں لانے کے حکومتی منصوبے کی راہ میں حائل رکاوٹیں دُور کرنا ہے۔

تاہم اطلاعات کے مطابق پہلے سے فعال مدارس بورڈز کی نمائندہ تنظیم اتحاد تنظیماتِ مدارسِ دینیہ (آئی ٹی ایم پی) ماہِ رمضان کے بعد حکومت پر دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی طے کر رہی ہے۔

یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ آئی ٹی ایم پی میں مختلف مسالک کے مدرسہ بورڈز شامل ہیں جن کی سرپرستی میں چلنے والے مدرسوں میں کہیں ہزاروں اور کہیں لاکھوں بچے زیرِ تعلیم ہیں۔

پاکستان میں سب سے زیادہ مدارس دیوبندی مکتبۂ فکر کے بورڈ ‘وفاق المدارس العربیہ’ کے تحت چلائے جا رہے ہیں جب کہ بریلوی مکتبۂ فکر کا مدرسہ بورڈ تنظیم المدارس، شیعہ مکتبۂ فکر کا بورڈ وفاق المدارس الشیعہ، اہلِ حدیث مسلک کا بورڈ وفاق المدارس السلفیہ ہے۔ اسی طرح پاکستان میں سیاسی و مذہبی جماعت جماعتِ اسلامی کے مدارس ‘رابطۃ المدارس السلامیہ’ کے تحت چلائے جا رہے ہیں۔

ہر مسلک کا مدرسہ بورڈ ایک وفاقی تعلیمی بورڈ کی طرح کام کرتا ہے جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں اپنے ہی مکتبۂ فکر کے مدارس کی رجسٹریشن، نصاب سازی اور تعلیمی نگرانی کے ساتھ ساتھ طلبہ کے لیے امتحانات کا انعقاد اور اسناد جاری کرنا شامل ہے۔

ہر مکتبۂ فکر کے مدرسہ بورڈ کے تحت نصاب کمیٹی اپنے ہی مکتبۂ فکر کے مدارس کے لیے یکساں نصاب تیار کرتی ہے اور ان کی جاری کردہ اسناد کو حکومت عصری تعلیم کے مختلف اسناد کے متوازی تسلیم کرتی ہے۔

مدارس کی جانب سے جاری کردہ اسناد شہادتِ ثانویہ عامہ (دو سال دورانیہ) کی سند میٹرک، شہادتِ ثانویہ خاصہ (دو سال دورانیہ) کی سند ایف اے، شہادتِ عالیہ کی سند (دو سال دورانیہ) بی اے اور شہادتِ عالمیہ کی سند (دو سال دورانیہ) ایم اے کے متوازی سمجھتی جاتی ہے۔

پاکستان میں مدارس کی سرکاری سطح پر اعداد و شمار تو دستیاب نہیں البتہ مختلف مدرسہ تنظیموں اور محققین سے اکھٹے کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق وفاق المدارس العربیہ سے وابستہ 21565 مدارس میں ساڑھے 28 لاکھ طلبہ و طالبات زیرِ تعلیم ہیں۔

اسی طرح تنظیم المدارس اہلسنت سے وابستہ 9616 مدارس میں 13 لاکھ طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ وفاق المدارس السلفیہ کے 1400 مدارس میں 40 ہزار، وفاق المدارس الشیعہ کے 550 مدارس میں 19 ہزار اور مدارس تنظیم رابطہ المدارس کے 1300 مدرسے پاکستان میں کام کر رہے ہیں۔

نئے مدارس بورڈز کی تشکیل

وفاقی وزیرِ تعلیم شفقت محمود اور وفاقی وزیر مذہبی امور پیر نور الحق قادری نے 10 فروری کو اسلام آباد میں ایک تقریب کے دوران مدارس کے پانچ نئے بورڈز تشکیل دینے کا اعلان کیا تھا۔

حکومتِ پاکستان کی جانب سے جن نئے مدارس بورڈز کی تشکیل دی گئی ہے ان میں اتحاد المدارس العربیہ، اتحاد المدارس الاسلامیہ، نظام المدارس پاکستان، مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ اور وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ شامل ہیں۔

اس طرح پاکستان میں مدارس بورڈز کی تعداد پانچ سے بڑھ کر دس ہو گئی ہے۔

‘مدارس کی اصلاحات ناگزیر مگر حائل رکاوٹیں دور کرنا مشکل ہے’

اسلام آباد میں قائم انٹرنیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی امور کے سربراہ محمد اسرار مدنی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ نئے مدارس بورڈز کی تشکیل کے بعد اب ملک میں بریلوی مسلک کے مدارس کے تین، دیو بندی، شیعہ اور اہلِ حدیث مکتبۂ فکر کے دو دو اور جماعتِ اسلامی سے منسلک ایک بورڈ بنا دیا گیا ہے۔

اُن کا کہنا ہے کہ “حکومت کا مدارس کے نئے بورڈز تشکیل دینے کا بنیادی مقصد پہلے سے موجود مدارس کے بورڈز کی اجارہ داری ختم کرنا اور ان کی مبینہ بلیک میلنگ سے بچنے کے لیے ان کے متوازی بورڈز قائم کرنا ہے۔”

حکومت کے نئے مدارس بورڈز کے قیام کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے تمام مساجد اور مدارس کی رجسٹریشن اور آڈٹ کے لیے سوالنامے بھجوانے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ جولائی 2005 میں لندن بم دھماکوں میں ایک حملہ آور کا تعلق پاکستان کے ایک مدرسے سے ثابت ہونے کے بعد اس وقت جنرل پرویز مشرف حکومت کی مدارس کے خلاف مبینہ کارروائیوں کو روکنے کے لیے مدارس کے پانچوں بورڈز نے ‘آئی ٹی ایم پی’ کے نام سے مشترکہ پلیٹ فارم تشکیل دیا تھا۔

محمد اسرار مدنی اس خدشے کا بھی اظہار کر رہے ہیں کہ حکومت نے عجلت اور مشاورت کیے بغیر مدارس کے نئے بورڈز تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اُن کے بقول “اس حوالے سے حکومت کی جانب سے نہ ہی ماہرین سے کوئی رائے طلب کی گئی اور نہ ہی روایتی مدارس سے کوئی مشاورت کی گئی ہے۔”

پاکستان میں مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا معاملہ کئی سالوں سے زیرِ غور ہے۔
پاکستان میں مدارس کو قومی دھارے میں لانے کا معاملہ کئی سالوں سے زیرِ غور ہے۔

یہاں اب مختلف مسالک اور ان کے مدارس کا جائزہ لیتے ہیں کہ انہیں کس طرح چلایا جاتا ہے۔

1۔ دیوبندی مدارس کے بورڈز

مدرسہ امور پر گہری نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے تشکیل پانے والے بورڈز میں سب سے اہمیت کی حامل تنظیم ‘اتحاد المدارس العربیہ’ ہے جس کا ہدف دیو بندی مدارس کے سب سے بڑے بورڈ ‘وفاق المدارس العربیہ’ کے اثر و نفوذ کو کم کرنا ہے۔

خیال رہے کہ وفاق المدارس العربیہ کے پاس رجسٹرڈ 21 ہزار 565 مدارس میں 28 لاکھ 66 ہزار 559 طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔

مدرسہ امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی منیر احمد شاہ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ‘اتحاد المدارس العربیہ’ 1982 میں قائم کیا گیا تھا مگر یہ بورڈ لگ بھگ چار دہائیوں میں اپنا اثر و نفوذ مدارس میں قائم نہیں کر سکا۔

اتحاد المدارس العربیہ کے منتظمین کے مطابق اتحاد المدارس العربیہ سے اب تک فارغ التحصیل طلبہ کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ ہے جب کہ ان کی اسناد پر علما مختلف سرکاری محکموں میں بھی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔

2۔ بریلوی مدارس کے بورڈز

حال ہی میں بننے والے دو بورڈز ‘وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ’ اور ‘نظام المدارس’ کا تعلق بریلوی مسلک سے ہے۔

صحافی منیر احمد شاہ کے مطابق ‘تنظیم المدارس اہلِ سنت پاکستان’ کے سربراہ مفتی منیب الرحمٰن کی پالیسیوں سے اختلاف کے سبب علیحدہ ہونے والے مدارس کے منتظمین ہی ‘وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ’ میں شامل ہوئے ہیں۔

‘تنظیم المدارس اہلِ سنت’ میں آٹھ ہزار سے زائد مدارس رجسٹرد ہیں جن میں زیرِ تعلیم طلبہ کی تعداد تقریباً 14 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

مفتی منیب الرحمٰن کو حکومت نے رویت ہلال کمیٹی کے عہدے سے بھی سبک دوش کر دیا تھا۔
مفتی منیب الرحمٰن کو حکومت نے رویت ہلال کمیٹی کے عہدے سے بھی سبک دوش کر دیا تھا۔

بریلوی مسلک کے نئے ‘وفاق المدارس الاسلامیہ الرضویہ’ کے صدر صاحبزادہ حسین رضا 2019 میں ‘تنظیم المدارس اہلِ سنت’ کے انتخابات میں خود ناظم اعلیٰ جب کہ سابق رُکن صوبائی اسمبلی پیر سید محفوظ مشہدی صدارت کے عہدوں کے امیدوار تھے۔

صاحبزادہ حسین رضا فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنما صاحبزادہ فضل کریم کے صاحبزادے اور مدرسہ ‘جامعہ رضویہ’ کے مہتمم (نگران) ہیں۔ ان کے بڑے بھائی صاحبزادہ محمد حامد رضا سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین ہیں۔

اسی طرح ‘نظام المدارس پاکستان’ کے نام سے تشکیل پانے والے بورڈ میں ڈاکٹر طاہر القادری کی تحریکِ منہاج القرآن کے زیرِ انتظام مدارس شامل کیے جائیں گے۔

3۔ اہلِِ حدیث مدارس کے بورڈز

نئے بورڈ ‘اتحاد المدارس الاسلامیہ’ میں اہلِ حدیث مسلک سے تعلق رکھنے والے مدارس کو شامل کیا جائے گا۔ اس بورڈ کے صدر مولانا محمد شریف چنگوانی مرکزی جمعیت اہلِ حدیث سے وابستہ رہے ہیں۔ اس کے ناظمِ اعلیٰ محمد یعقوب شیخ کالعدم جماعت الدعوۃ سے بھی منسلک رہے ہیں۔

محمد یعقوب شیخ 2017 میں لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 120 پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں جماعت الدعوۃ کے سیاسی ونگ ملی مسلم لیگ کے حمایت یافتہ اُمیدوار بھی تھے۔

خیال رہے کہ ‘وفاق المدارس السلفیہ’ کے نام سے پہلے ہی سے فعال مدرسہ بورڈ سے ڈھائی ہزار کے لگ بھگ اہلِ حدیث مدارس وابستہ ہیں۔ اس بورڈ کے سربراہ مرکزی جمعیت اہلِ حدیث کے سربراہ اور مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر پانچویں مرتبہ سینیٹر بننے والے پروفیسر ساجد میر ہیں۔

4۔ شیعہ مدارس کے بورڈز

حال ہی میں قائم کیے جانے والے بورڈ ‘مجمع المدارس تعلیم الکتاب والحکمہ’ کی سربراہی ممتاز شیعہ رہنما علامہ سید جواد نقوی کے پاس ہے جو ‘تحریکِ بیداری امت مصطفیٰ’ کے سربراہ اور لاہور کے دینی مدرسے ‘جامعہ عروۃ الوثقیٰ’ کے پرنسپل ہیں۔ ‘مجمع المدارس’ کا مرکزی دفتر بھی اسی مدرسے میں قائم کیا گیا ہے۔

پہلے ہی سے فعال ‘وفاق المدارس الشیعہ’ کے ساتھ سینکڑوں مدارس رجسٹرڈ ہیں جس میں ہزاروں طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔

‘وفاق المدارس شیعہ’ کا باقاعدہ قیام مارچ 1979 میں ‘جامعۃ المنتظر’ لاہور میں شیعہ مدارس کے ایک اجتماع میں عمل میں لایا گیا تھا۔ اِس وقت علامہ سید ریاض حسین نجفی ‘وفاق المدارس شیعہ’ کے صدر اور مولانا محمد افضل حیدری جنرل سیکرٹری ہیں۔

5۔ جماعت اسلامی سے منسلک بورڈ

جماعتِ اسلامی سے وابستہ مدارس ‘تنظیم رابطۃ المدارس’ کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے موجودہ صدر اور جنرل سیکریٹری مولانا عبدالمالک اور ڈاکٹر عطا الرحمٰن ہیں جو 2002 کے عام انتخابات میں متحدہ مجلس عمل کے ٹکٹ پر صوبہ خیبرپختونخوا سے رکنِ قومی اسمبلی بھی منتخب ہوئے تھے۔ حکومت نے ‘تنظیم رابطہ المدارس’ کے مقابلے میں کوئی نیا بورڈ تشکیل نہیں دیا۔

نئے مدارس بورڈز کی تشکیل پر ‘آئی ٹی ایم پی’ کا ردِعمل

اتحاد تنظیمات مدارس پاکستان (آئی ٹی ایم پی) مدارس کے نئے بورڈز کی تشکیل پر کئی ہفتوں سے خاموش تھی۔ تاہم نو مارچ کو ملتان میں قائم ‘وفاق المدارس العربیہ’ کے مرکزی دفتر میں ایک اجلاس منعقد کیا گیا جس میں پرانے پانچوں بورڈز کے سربراہان پروفیسر ساجد میر، مولانا محمد حنیف جالندھری، مولانا عبدالمصطفیٰ ہزاروی، پروفیسر یاسین ظفر اور دیگر علما نے شرکت کی۔

اجلاس کے اعلامیے کے مطابق ‘آئی ٹی ایم پی’ نے نئے بورڈز کی تشکیل پر بظاہر کسی بھی تشویش کا اظہار نہیں کیا مگر ساتھ ہی ساتھ یہ سوال اٹھایا گیا کہ دینی علوم کی حقیقی تعلیم کہاں دی جاتی ہے۔

جامعہ عثمانیہ پوسٹ گریجویٹ کالج مدارس کے لئے ایک ماڈل؟

اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ نئے حکومتی اقدامات کے بعد یہ بات عیاں ہو جائے گی کہ علومِ دین کے طلبہ کہاں رجوع کرتے ہیں اور کہاں کی دینی تعلیم پر اعتماد کرتے ہیں۔

البتہ اجلاس میں شریک کراچی کے ایک دیو بندی مدرسے کے مہتمم نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اجلاس میں نئے بورڈز کی تشکیل کے معاملے پر دینی جماعتوں کے ساتھ مل کر عید کے بعد حکومت پر دباؤ ڈالنے کی حکمتِ عملی کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔

اجلاس میں ‘آئی ٹی ایم پی’ کو صوبائی اور ضلعی سطح پر منظم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ مدارس کے معاملات پر وفاقی، صوبائی اور شہری حکومتوں پردباؤ ڈالنے کے لیے احتجاج کرنے میں آسانی ہو۔

خیال رہے کہ آئی ٹی ایم پی کا تنظیمی ڈھانچہ فی الحال صرف مرکز کی سطح پر قائم ہے۔

حکومتی مؤقف

وزیرِ اعظم عمران خان کے معاون خصوصی علامہ طاہر اشرفی کا کہنا ہے کہ نئے مدرسہ بورڈ بنانے سے دینی مدراس کے نظام میں بہتری آئے گی۔

ان کے بقول، “پہلی مرتبہ مدارس کی تعلیم کو وفاقی وزارتِ تعلیم کے ساتھ منسلک کیا گیا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ تعلیم صرف مدرسہ بورڈ کی جانب سے جاری کردہ سند سے منسلک تھی۔”

انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اب دینی مدارس کے طلبہ کو ایف اے تک تعلیم دی جائے گی اور وہ یہ سلسلہ مزید جاری رکھ سکتے ہیں۔

علامہ طاہر اشرفی کہتے ہیں ملک میں پہلے سے موجود عصری تعلیم کے بیس پچیس نظام کے بعد دینی مدارس کے مزید بورڈز پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ نئے مدرسہ بورڈز کے قیام کے بعد بعض مدارس کے نام پر حکومت کو کی جانے والی بلیک میلنگ کا خاتمہ ہو گا۔

کیا مولانا فضل الرحمٰن مدارس کی رجسٹریشن کی راہ میں حائل ہیں؟

‘آئی ٹی ایم پی’ کے ساتھ کئی ماہ تک جاری مذاکرات کے نتیجے میں حکومت کی جانب سے مدارس کی رجسٹریشن کے عمل کا اعلان کیا گیا جسے حکومت اپنی بڑی کامیابی تصور کر رہی تھی۔

اس حوالے سے گزشتہ برس تین اکتوبر کے قومی اخبارات میں ‘دینی مدارس کی رجسٹریشن کا آغاز’ کے عنوان سے اشتہارات بھی شائع کرائے گئے۔ ان اشتہارات میں مدارس کی سہولت کے لیے مقامی سطح پر 133 حکومتی مراکز قائم کرنے کا بھی اعلان کیا گیا۔

البتہ مدارس کی جانب سے حکومت کو خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔

حکومت مدارس مذاکرات سے باخبر حلقے اسے ‘آئی ٹی ایم پی’ کا مولانا فضل الرحمٰن کو ان مذاکرات میں ہونے والے فیصلوں میں اعتماد میں نہ لینے سے جوڑ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مدارس کی اکثریت نے، جو جے یو آئی (ف) کے زیرِ اثر ہے، رجسٹریشن کرانے سے انکار کر دیا ہے۔

‘آئی ٹی ایم پی’ کے ساتھ وابستہ حالیہ معاہدوں کے تحت حکومت ایسے تمام مدارس کو بند کر دے گی جو وزارت کے ساتھ اندراج سے انکار کریں گے اور انہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کی اجازت نہیں ہو گی۔

حالیہ برسوں میں ملک کے مرکزی بینک ‘اسٹیٹ بینک آف پاکستان’ نے بھی متعدد مدارس کے بینک اکاؤنٹس بند کیے ہیں جنہوں نے اپنے آمدن کے ذرائع ظاہر کرنے یا حکومت کی جانب سے متعارف کرائے گئے نئے طریقۂ کار کے تحت اندراج کرانے سے انکار کیا تھا۔

‘آئی ٹی ایم پی’ دینی مدارس کے حوالے سے سابقہ ادوار میں کیے گئے اقدامات کی مبینہ ناکامی کا حوالہ دے کر حکومت پر مذاکرات اور معاہدوں میں تاخیر کا الزام عائد کر رہی ہے۔

‘آئی ٹی ایم پی’ کا یہ گلہ رہا ہے کہ اتحاد کی نیک نیتی کے باوجود حکومت بار بار معاہدوں کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوئی ہے۔

ایک ہی بورڈ تشکیل دینے کا مطالبہ

دوسری جانب جماعت اسلامی اور مدرسہ امور کے ماہرین ملک میں مسلکی شناخت کا بحران ختم کرنے کے لیے مدرسے کے ایک ہی بورڈ کی تشکیل پر زور دے رہے ہیں۔

جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق نے نئے بورڈز کی تشکیل کے حکومتی فیصلے کو قوم کو مزید فرقوں میں تقسیم کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ “جماعتِ اسلامی شروع ہی سے دینی مدارس کے ایک اور یکساں بورڈ اور یکساں نصاب کی حامی رہی ہے جب کہ حکومت مغربی قوتوں کے دباؤ پر نئے بورڈ تشکیل دے کر مدارس کے لاکھوں طلبہ کے مستقبل کے ساتھ کھیل رہی ہے”۔

اپنا تبصرہ بھیجیں