عراق: سعودی عرب اور ایران کے درمیان براہ راسراست مذاکرات

لندن + بغداد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/روئٹرز) سعودی عرب اور ایران کے اعلیٰ حکام کے درمیان براہ راست ملاقات ہوئی ہے جس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان تناؤ کے شکار تعلقات کی بحالی کی کوشش ہے۔ تعلقات منقطع کرنے کے چار سال بعد یہ اولین براہ راست ملاقات ہوئی ہے۔

برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کے مطابق سعودی عرب اور ایران کے سینیئر حکام کی یہ ملاقات نو اپریل کو عراقی دارالحکومت بغداد میں ہوئی اور اس میں متعدد اہم امور پر گفتگو ہوئی۔

فنانشل ٹائمز نے اس معاملے کے بارے میں معلومات رکھنے والے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کا یہ پہلا راؤنڈ تھا، جس میں حوثی باغیوں کی طرف سے سعودی عرب پر کیے جانے والے میزائل اور ڈرون حملوں کے معاملے پر بھی بات ہوئی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی حکام کی طرف سے اس ملاقات کے بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا گیا جبکہ ایرانی حکام بھی اس پر بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہوئے۔ فنانشل ٹائمز کے مطابق تاہم ایک سینیئر سعودی اہلکار نے ایران کے ساتھ بات چیت کی خبر کی نفی کی ہے۔

چار سال سے منقطع سفارتی تعلقات

خیال رہے کہ چار برس قبل سعودی عرب اور ایران نے ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی روابط ختم کر دیے تھے اور اس کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان اس سطح کا یہ پہلا رابطہ تھا۔ اس حوالے سے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ عراقی وزیر اعظم مصطفیٰ الکاظمی نے گزشتہ ماہ کے آخر میں سعودی عرب کا دورہ کیا تھا۔ برطانوی اخبار کے مطابق اس ملاقات کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی اور تعلقات میں بہتری کی کوشش ہے۔

ایرانی جوہری معاہدہ اور سعودی نقطہ نظر

سعودی عرب اور ایران کے درمیان براہ راست ملاقات کی یہ خبر ایک ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب واشنگٹن حکومت ایران کے ساتھ 2015ء میں طے پانے جوہری معاہدے میں واپسی کے حوالے سے پیشرفت ہو رہی۔ سعودی حکومت اس جوہری معاہدے کی مخالف رہی ہے۔ دوسری طرف واشنگٹن نے ریاض حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ یمنی تنازعے کے خاتمے کی راہ ہموار کرے کیونکہ امریکا اسے ایران اور سعودی عرب کی پراکسی جنگ سمجھتا ہے۔

ریاض حکومت ایران کے جوہری معاہدے کے حوالے سے سخت ضوابط کی حامی ہے ساتھ ہی اس کا مؤقف ہے کہ اس حوالے سے بات چیت میں خلیجی عرب ممالک کو بھی شامل کیا جائے اور ایران کے جوہری پروگرام کے ساتھ ساتھ اس کے میزائل پروگرام کو بھی اس معاہدے کا حصہ بنایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں