امریکی صدر جو بائیڈن نے آرمینیائی عیسائیوں کے قتل عام کو نسل کُشی قرار دے دیا

واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے/اے ایف پی/اے پی) امریکی صدر جو بائیڈن نے پہلی عالمی جنگ کے دوران سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کو نسل کُشی قرار دے دیا ہے۔ اس کو مسترد کرتے ہوئے ترکی نے کہا ہے کہ بائیڈن امریکا کی حالیہ تاریخ پر نظر ڈالیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے ہفتہ 24 اپریل کو سلطنت عثمانیہ کے دور میں آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کے واقعے کو نسل کُشی قرار دے دیا۔ اس طرح ڈیموکریٹ امریکی صدر جو بائیڈن امریکا کے وہ پہلے صدر بن گئے جنہوں نے ترکی کے لیے ایک سیاہ دھبے کی حیثیت رکھنے والے ان واقعات کو نسل کُشی قرار دیا ہے۔

جو بائیڈن کی طرف سے آرمینیائی باشندوں کے 1915 ء میں سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہونے والے قتل عام کے اس واقعے کے حوالے سے ایک روز قبل یعنی جمعے کو ہی ترک صدر رجب طیب اردوآن کے ساتھ فون پر بات چیت کی تھی۔

بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے یہ اعلان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ آرمینیائی باشندوں کے ساتھ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ہونے والے ظلم و ستم کو نسل کُشی قرار دینے کا معاملہ ہمیشہ ہی سے امریکا اور ترکی کے سفارتی تعلقات پر براہ راست اثر انداز ہوتا رہا ہے اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کا رکن ہونے کے ناطے امریکا اور ترکی دونوں ہی اس موضوع کو زیر بحث لانے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کرتے آئے ہیں۔ ترکی تاریخ کے اُن واقعات کو جنہیں’آرمینیائی باشندوں کی نسل کُشی‘ کہا جا رہا ہے، ہمیشہ سے مسترد کرتا آیا ہے۔

چوبیس اپریل کی اہمیت

امریکی صدر جو بائیڈن نے 24 اپریل کو اُن تاریخی واقعات کے بارے میں یہ بیان اس لیے دیا کہ سن 1915میں بڑے پیمانے پرآرمینیائی باشندوں کی ہلاکتوں کی ہفتے کے روز 106ویں برسی تھی۔ مارے جانے والے ہزاروں آرمینیائی باشندوں کے ورثاء اس بارے میں ایک عرصے سے مہم چلا رہے ہیں کہ کسی طرح عالمی برادری کی جانب سے اُن واقعات کو قتل عام یا ‘نسل کُشی‘ قرار دیا جائے۔

ہفتے کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے بیان میں کہا، ” امریکا 1915ء میں ہونے والے قتل عام کو، جس میں ڈیڑھ ملین آرمینیائی باشندوں کو سلطنت عثمانیہ کے دور میں موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا ‘نسل کُشی‘ قرار دیتا ہے۔‘‘ بائیڈن کا مزید کہنا تھا،” ہم ان واقعات میں ہلاک ہونے والے تمام آرمینیائی باشندوں کو اس دن یاد کر رہے ہیں اور اس عزم کا دوبارہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم آئندہ کبھی اس قسم کے واقعات کو نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

آرمینیا کا موقف ہے کہ اس دوران 15 لاکھ آرمینیائی باشندوں کو قتل کیا گیا۔ ترکی ان اعداد و شمار کو ہمیشہ غلط قرار دیتا ہے اور اس کا موقف ہے کہ یہ اموات عالمی جنگ میں شروع ہونی والی عام شورش کا حصہ تھیں۔

ترکی کا کہنا ہے کہ ظلم ہوا تھا، تاہم اس میں صرف عیسائیوں کی ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی بھی ہلاکتیں ہوئی تھیں۔

ترکی کا رد عمل

جوبائیڈن کے اعلان کے چند منٹوں بعد ہی ترکی نے جواب میں مکمل طور پر اس لیبل کو مسترد کر دیا۔ ترک وزارت خارجہ نے اس معاملے پر ترکی میں متعین امریکی سفیر کو طلب کر لیا۔ ترک وزیر خارجہ مولوت چاؤش اُولو نے ایک ٹوئیٹ میں تحریر کیا، ”ہمیں اپنے ماضی کے بارے میں کسی سے کچھ سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سیاسی موقع پرستی امن و انصاف کی سب سے بڑی خیانت ہے۔ ہم پاپولزم یا عوامیت پرستی پر مبنی اس بیان کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں۔

‘‘ اُدھر ترکی کے ایک صدارتی ترجمان ابراہیم کلن نے اپنے بیان میں کہا کہ جو بائیڈن کو دوسروں پر تنقید سے پہلے حالیہ امریکی تاریخ کو دیکھنا چاہیے۔ کلن کا کہنا تھا، ”ہم امریکی صدر کے ان بیانات کی شدید مذمت کرتے ہیں اور ان کو مسترد کرتے ہیں جو صرف ان لوگوں کے الزامات کو دہراتے ہیں جن کا واحد ایجنڈا ہمارے ملک سے دشمنی ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”ہم امریکی صدر کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ خود اپنے ملک کے ماضی اور حال پر نظر ڈالیں۔‘‘

آرمینیائی باشندے پہلی عالمی جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر اپنی نسلی برادری کی ہلاکتوں کو آرمینائی نسل کشی کا نام دیتے ہیں اور انہوں نے جو بائیڈن کے بیانات پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں