افغانستان: امریکی سفارتی عملے کو فوری طور پر کابل چھوڑنے کا حکم

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکی اور نیٹو افواج کے تقریباً 10,000 سپاہیوں کو فضائی مدد فراہم کرنے کیلئے پیر کے روز امریکہ کے دو B-52 بمبار طیارے قطر کے الادید ہوائی اڈے پر پہنچ گئے ہیں

امریکی محکمۂ خارجہ نے افغانستان میں تعینات افواج کے انخلا کے تناظر میں لاحق خطرات کی وجہ سے کابل میں قائم اپنے سفارت خانے کے عملے سے کہا ہے کہ سفارتخانے کے وہ ملازمین جو کہیں دور سے بھی اپنا کام انجام دے سکتے ہیں، انہیں فوری طور پر کابل چھوڑ دینا چاہیے۔

اپنے ایک بیان میں امریکی محکمۂ خارجہ نے امریکی شہریوں کے لیے انتباہ جاری کیا ہے کہ وہ افغانستان کا سفر نہ کریں، کیوں کہ افغانستان کے تمام علاقے اس وقت غیر محفوظ ہیں۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد اور باغی گروپوں کی جانب سے حملے، اغوا کرنے، یرغمال بنانے، خودکش حملے، وسیع پیمانے پر عسکری کارروائیوں کا خطرہ ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دہشت گرد، افغان اور امریکی کاروانوں اور تنصیبات پر حملوں کے منصوبے تیار کر رہے ہیں اور پہلے بھی سرکاری کارواں پر حملے کیے گئے ہیں۔ ان حملوں کا نشانہ غیر ملکی سفارت خانے، غیر سرکاری تنظیموں اور غیر ملکی کاروباروں کے دفاتر اور یہاں تک کہ ہسپتال اور رہائشی علاقے بھی بن سکتے ہیں۔

ادھر، افغان صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ طالبان نے پچھلے کچھ مہینوں کے دوران افغانستان میں عوامی املاک کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان پہنچایا ہے۔

انہوں نے منگل کو صدارتی محل میں چار افغان صوبوں ہرات، بلخ، ننگر ہار اور قندھار میں ایک سو مختلف ترقیاتی منصوبوں کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے طالبان سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ پلوں کو کیوں تباہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ افغانستان کی تعمیر میں کوئی مثبت حصہ نہیں لے سکتے، تو انہیں املاک کو نقصان بھی نہیں پہنچانا چاہیے۔

دوسری طرف، امریکی محکمۂ دفاع نے کہا ہے کہ اگر طالبان یا کوئی اور گروپ، انخلا کی تیاریوں میں مصروف امریکی یا نیٹو افواج کو نشانہ بناتا ہے، تو ان سے نمٹنے کے لیے امریکی فوج کے منصوبہ سازوں کے پاس بہت سے آپشنز موجود ہیں۔

وائس آف امریکہ کے جیف سیلڈن کی رپورٹ کے مطابق، آئندہ مہینوں میں افغانستان سے واپس آنے والے امریکی اور نیٹو افواج کے تقریباً 10 ہزار سپاہیوں کو فضائی مدد دینے کے لیے پیر کے روز، امریکہ کے دو B-52 بمبار طیارے قطر کے الادید ہوائی اڈے پر پہنچ گئے ہیں۔

ان کے علاوہ، امریکہ کے دو بمبار طیارے پہلے سے ہی وہاں موجود ہیں۔ امریکہ کے طیارہ بردار بحری بیڑے یو ایس ایس ڈوائٹ ڈی آئزن ہاور کو ہدایات ملی ہیں کہ وہ انخلا کے آغاز تک خطے میں ہی رہے۔

فوجی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ مختصر نوٹس پر بری افواج بھی کمک کے لیے روانہ کی جا سکتی ہیں۔

افغان جنگ کے 20 سال: کب کیا ہوا؟

پینٹاگون کے پریس سیکرٹری جان کربی نے صحافیوں کو بتایا ہے کہ افغانستان میں فوج کی تعداد میں اضافے کے امکان کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ بھی فرض کیا جا رہا ہے کہ طالبان اس انخلا کی مخالفت کر سکتے ہیں، گو کہ ہم نہیں چاہتے کہ ایسا ہو۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی فوج کے لیے ایسے کسی بھی واقعے کے رونما نہ ہونے کو یقینی بنانا سب سے اہم ہے۔ دوسرے، انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر امریکی فوج کی اتنی قابلیت اور اہلیت ہونی چاہئیے کہ وہ انخلا کے وقت اپنے لوگوں کی حفاظت کر سکے۔

اس ماہ کے آغاز پر امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا تھا کہ وہ یکم مئی سے افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلا رہے ہیں، اور یہ عمل ستمبر میں جا کر مکمل ہو گا۔ تاہم، افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر کا اتوار کے روز کہنا تھا کہ انخلا کا عمل پہلے سے ہی شروع ہو چکا ہے۔

جنرل سکاٹ آسٹن ملر نے کابل میں نامہ نگاروں کو بتایا کہ اس کا آغاز ہو چکا ہے، اور اس سے مراد افغان سیکیورٹی فورسز کو اڈے اور ساز و سامان منتقل کرنا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب امریکی اور نیٹو افواج کےآخری دستے یہاں سے روانہ ہوں گے تو اس وقت افغان فوج تیار ہونی چاہئیے۔

تاہم، اس کے باوجود چوٹی کے فوجی عہدیداروں اور متعدد سرکاری نگران اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امن مذاکرات ناکام ہوئے تو پھر افغان فوج میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ طالبان کی جانب سے کسی عسکری نوعیت کےچیلنج کا مقابلہ کر سکے۔

یو ایس سینٹرل کمان کے جنرل فرینک مکینزی نے گزشتہ ہفتے امریکی قانون سازوں کو بتایا تھا کہ انہیں افغان افواج کی صلاحیت کے حوالے سے فکر لاحق ہے کہ آیا وہ کسی سہارے کے بغیر اپنی جگہ کھڑے رہ پائیں گے، کیونکہ انہیں برسوں تک سہارا ملتا رہا ہے۔

امریکی انخلا کی چند تفصیلات پر ابھی کام ہو رہا ہے۔ پینٹاگون کے عہدیداروں کو توقع ہے کہ اس جمعہ کو حتمی منصوبہ پیش کر دیا جائے گا۔ تاہم، ایسے راستے بھی تلاش کئے جا رہے ہیں کہ دور رہ کر بھی افغان افواج کی مدد کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ ورچوئیل کال کے ذریعے افغان فضائیہ کی مدد کی جائے تا کہ اس کی فضائی سرگرمیاں جاری رہیں۔

تاہم جان کربی کا پیر کے روز کہنا تھا کہ امریکہ افغانستان میں رہ کر ان کی مدد نہیں کرے گا۔ انہوں نے بتایا کہ پینٹاگون اس بات کا جائزہ لے رہا ہے کہ ایک ذمہ دارانہ انداز میں ایوی ایشن جیسے شعبہ میں ان کی مدد کیسے جاری رکھی جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکہ بنیادی طور پر افغان افواج کی مالی مدد کرے گا۔

انخلا کے اعلان کردہ منصوبے کے باوجود، طالبان عہدیدار بار ہا یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر یکم مئی تک انخلا نہ ہوا تو وہ امریکی اور اتحادی افواج پر حملے کریں گے۔ انخلا کی یہ تاریخ اس معاہدے میں طے پائی تھی جو طالبان اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کے درمیان طے پایا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں