سفارت کاروں سے وزیر اعظم عمران خان کا خطاب تنقید کی زد میں

اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) وزیراعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے سفراء اور سفارتخانوں پر تنقید کو سابق سفارت کاروں اور کئی مبصرین نے مایوس کن قرار دیا ہے۔ ان کے خیال میں وزیراعظم کی طرف سے اس طرح تنقید انتہائی نامناسب ہے۔

پاکستانی حکومت نے حال ہی میں سعودی عرب سے سفیر سمیت سفارتخانے کے عملے کے کئی ارکان کو واپس بلا لیا ہے۔ ان کو واپس بلائے جانے کی وجہ ان کی غیر تسلی بخش کارکردگی کو قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے ایک انکوائری بھی ہورہی ہے۔

وزیر اعظم کا خطاب

ان کا مزید کہنا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے پاکستانی سفارت خانوں سے وزیراعظم پورٹل پر بہت ساری شکایات آئی ہیں۔ انہوں نے سفراء کو بتایا کہ ان دونوں ممالک سے پاکستانی مزدور سب سے زیادہ زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں لیکن پاکستانی سفارتخانوں کے عملے کا رویہ ان کے ساتھ مناسب نہیں ہے۔

وزیراعظم کے اس بیان کو نہ صرف سابق سفراء ہدف تنقید بنا رہے ہیں بلکہ تجزیہ نگار بھی اس خطاب پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نے کل دنیا بھر میں متعین پاکستانی سفیروں سے ایک آن لائن خطاب کیا تھا، جس میں انہوں نے سفارتخانوں اور ان کے عملے پر نوآبادیاتی سوچ رکھنے کا الزام لگایا تھا۔

وزیراعظم نے اس بات کا بھی شکوہ کیا تھا کہ پاکستانی سفارت خانے ملک میں سرمایہ کاری لانے کے لیے اتنے سرگرم نہیں ہیں، جتنے کے بھارت یا کسی دوسرے ممالک کے سفارت خانے ہوتے ہیں۔

وزیر اعظم کی تنقید مایوس کن

دفتر خارجہ کی سابق ترجمان و سکریٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ وزارت خارجہ پر غیر ضروری تنقید سے انہیں سخت مایوسی ہوئی ہے۔

انہوں نے وزیر اعظم کا نام لیے بغیر کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ سفارت خانوں میں کونسلر ورک کے حوالے سے عدم واقفیت ہے، وسائل کی شدید کمی کا بھی ادراک نہیں ہے اور مختلف اداروں کے کام کی نوعیت کے حوالے سے بھی آگہی نہیں جو سفارتکاروں کے ماتحت نہیں ہوتے۔

سفارتخانے اور خدمت

تہمینہ جنجوعہ نے نوآبادیاتی مائنڈ سیٹ کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ کورونا وائرس کے دوران پاکستانی سفارتخانے کا عملہ ووہان میں پاکستانی کمیونٹی کے ساتھ تھا اور اس نے نہ صرف وہاں پر پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی مدد کی بلکہ ان میں کھانا بھی تقسیم کیا۔

انہوں نے اپنی ٹویٹ میں اس بات پر زور دیا کہ سفارتخانوں میں کونسلر سروس کے حوالے سے جو مسائل ہیں، انہیں ایک مربوط انداز میں حل کرنا چاہیے اور ایسے مسائل ٹویٹس کے ذریعے حل نہیں ہوسکتے۔

ٹوئٹر پر ایک صارف نے لکھا کہ وزیراعظم کا بیان سویلین بیوروکریسی کو قربانی کا بکرا بنائے جانے والے رجحان کی عکاسی کرتا ہے۔

تمسخر اڑانا مناسب نہیں

پاکستان کے سابق سفیر برائے ناروے و آذربائیجان فیض محمد کھوسو کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ پاکستان کے سفارت کاروں سے خطاب کریں یا ان کی کارکردگی کے حوالے سے سوالات اٹھائیں کیونکہ وہ ملک کے وزیراعظم ہیں۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ”لیکن یہ کسی طور پر مناسب نہیں کہ پوری کی پوری وزارت خارجہ کا تمسخر اڑایا جائے یا ان کی کارکردگی کو سر عام غیر تسلی بخش قرار دیا جائے کیونکہ پاکستان کے سفارت کاروں کی کارکردگی دوسرے ممالک کے سفارتکاروں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے۔ اگر وزیراعظم کو کچھ سفارتکاروں سے شکایت تھی تو ان کو پیغامات بھجوانے کے طریقہ کار ہیں یا وزیر اعظم ان کو طلب بھی کر سکتے تھے لیکن اس طرح وزارت خارجہ یا سفارتخانوں کی کارکردگی کو عوامی سطح پر سوالات کی زد میں لانا مناسب نہیں ہے۔‘‘

شکایت اور مبالغہ

سابق سفارت کار نجم الدین شیخ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی کچھ شکایات میں سچائی ہے لیکن کچھ شکایت مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔

انہوں نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،”سفارت خانوں میں عملے کے افراد وزارت داخلہ، وزارت تجارت اوردیگر دوسری وزارتوں سے بھی آتے ہیں اور وہ سفارت کاروں کے ماتحت نہیں ہوتے۔ وزیر اعظم کو اس بات کی واضح تفریق کرنی چاہیے تھی یہ شکایات کن افراد کے خلاف ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جو لوگ مختلف وزارتوں سے آتے ہیں ان کے لیے مخصوص تربیتی نشستیں کی جائیں تاکہ ان کی کارکردگی بہتر ہو۔ یہ ممکن نہیں کہ ایک دن ایک شخص اسسٹنٹ کمشنر ہو اور دوسرے دن وہ شخص اپنے تعلقات کو استعمال کر کے کسی سفارتخانے میں لگ جائے اور وہاں پر کمیونٹی سروس آفیسر یا کسی اور طور پر خدمات انجام دے اور بعد میں پھر اسسٹنٹ کمشنر بن جائے۔ ہمیں اس رجحان کو روکنا چاہیے۔‘‘

سرمایہ کاری کا مسئلہ

نجم الدین شیخ کا کہنا تھا کہ سفراء سرمایہ کاری کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں،”یقینا وہ جس ملک میں متعین ہیں وہاں وہ سرمایہ کاروں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ پاکستان میں کس طرح کے تجارتی و اقتصادی مواقع دستیاب ہیں لیکن اس کے لیے ان کا اور بورڈ آف انویسٹمنٹ میں رابطہ ہونا چاہیے اور بورڈ آف انویسٹمنٹ کی فزیبیلیٹی رپورٹ ان کے پاس ہونی چاہیے۔‘‘

اپنا تبصرہ بھیجیں