افغانستان سے نکل رہے ہیں لیکن سکیورٹی فورسز کی مدد جاری رہے گی، امریکی وزیر خارجہ

واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا ہے کہ اگر افغانستان میں مستقبل کی کوئی بھی حکومت خواتین یا لڑکیوں کو حاصل حقوق واپس لیتی ہے تو اس کو بین الاقوامی برادری سے کوئی مدد حاصل نہ ہو گی اور وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گی۔

وزیر خارجہ نے ایک انٹرویو کے دوران یہ بات اس وقت کہی جب ان سے ایک کثیر الجہتی نوعیت کا سوال کیا گیا۔ اس سوال میں ان سے پوچھا گیا کہ فوجی عہدیداروں کے دلائل کے برعکس صدر بائیڈن نے افغانستان سے انخلا کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ان حالات میں کیا آپ نتائج کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں، جن بدترین حالات سے صدر کے اپنے مشیر خبردار کر رہے ہیں؟ ان کے مطابق طالبان دوبارہ افغانستان پر قبضہ کر سکتے ہیں؟ اور کیا امریکہ ان کے ساتھ کھڑا ہو گا، اگر طالبان نے خواتین اور لڑکیوں سے تمام حقوق واپس لے لیے, جن کے لیے برسوں سخت جدوجہد کی گئی ہے؟

وزیر خارجہ نے افغانستان سے انخلا کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ ہم افغانستان میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں گئے تھے۔ ہم اس حملے کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے گئے تھے اور اس بات کو یقینی بنانے کہ افغانستان کی سرزمین سے دوبارہ ایسے حملوں کی منصوبہ بندی نہ ہو سکے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کو دس سال پہلے کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔

وزیرخارجہ نے کہا کہ ہم افغاستان سے اپنی فوجیں نکال رہے ہیں لیکن ہم اس سے تعلق ختم نہیں کر رہے۔ ہم افغانستان کے لیے اپنی بھرپور مدد جاری رکھیں گے، اس کی معاشی ترقی، انسانی فلاح اور سکیورٹی فورسز کی مدد جاری رہے گی۔ مسٹر بلنکن نے کہا کہ ہم نے تین لاکھ سے زیادہ افغان سکیورٹی اہلکاروں کو تربیت فراہم کی ہے۔ دیگر ممالک بھی، ان کے بقول، افغانستان کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ طالبان کو بھی اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ ملک کو واپس خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں یا وہ بین الاقوامی برادری سے کسی حد تک خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔

اینٹونی بلنکن نے کہا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک کو بھی فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ افغانستان کو آگے بڑھانے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں گے یا وہ کچھ نہیں کریں گے اور ممکنہ طور پر اجازت دے دیں گے کہ افغانستان ایک اور خانہ جنگی میں چلا جائے اور اس کے بھیانک نتائج کا ان کو اور افغانستان کے عوام کو سامنا کرنا پڑے؟

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم سفارتکاری پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ آیا طالبان افغان حکومت کے ساتھ مل کر بیٹھیں گے، اور کیا اس تنازعے کے کسی سیاسی حل کی کوشش کریں گے جو اب بہت طویل ہو چکا ہے؟ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ ہم نے خواتین اور لڑکیوں کے لیے جو پروگرام شروع کیے ہیں، ہم ان کو برقرار رکھنے پر بھی توجہ دیے ہوئے ہیں۔

یاد رہے کہ یکم مئی کو امریکی فوج کے انخلاٗ کے آغاز کے بعد سے افغانستان کے بعض علاقوں میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان جھڑپوں میں تیزی آ گئی ہے جب کہ امریکی فضائیہ نے طالبان کے بعض ٹھکانوں پر بمباری بھی کی ہے۔ امریکی فوج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران ہونے والی ان جھڑپوں کے بعد سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ کیا امریکی انخلا کے بعد افغان فورسز طالبان کا مقابلہ کر پائیں گی یا نہیں؟

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ایک امریکی اہل کار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر تصدیق کی ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے ہلمند میں جاری افغان فورسز اور طالبان کی لڑائی میں امریکہ نے طالبان جنگجوؤں کے خلاف فضائی حملے کیے ہیں۔

تاہم اہل کار نے ان کارروائیوں کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کیا ہے۔

دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی اس حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کی ہیں۔ البتہ پینٹاگون کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود کمانڈرز ایسی کسی کارروائی کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

پینٹاگون کے پریس سیکریٹری جان کربی کا کہنا ہے کہ اس وقت ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں لیکن جس حد تک بھی ہم افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز کی معاونت کرسکتے ہیں اسے جاری رکھیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں