ایبٹ آباد میں مقتول صحافی سہیل خان کی بہن کا قتل، ایک ملزم گرفتار، دوسرا فرار

پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) خیبر پختونخوا کے ضلع ہری پور میں اکتوبر 2018 میں قتل کیے جانے والے مقامی صحافی سہیل خان کی بہن کو بھی مخالفین نے مبینہ طور پر گھر میں گھس کر گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

مقتول صحافی محمد سہیل خان کی بہن ردا بی بی کے قتل کا الزام دو افراد پر لگایا گیا ہے جن میں سے ایک کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے جب کہ دوسرا شخص فرار ہوگیا ہے۔

پولیس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ 5 مئی 2021 کو ہونے والے اس واقعے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے اور مزید تحقیقات جاری ہیں۔

مقتول صحافی محمد سہیل خان اور ان کی بہن روا بی بی کے قتل کے ملزمان کا تعلق ہری پور کے صنعتی علاقے حطار انڈسٹریل کے ایک موثر گروپ سے بتایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے مقامی سیاسی کارکن اور صحافی اس واقعہ پر کسی قسم کا تبصرہ یا مؤقف دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

پانچ مئی کو ہونے والے اس واقعے کے بعد ہری پور کے ضلعی پولیس افسر نے حطار پولیس تھانے کے ایس ایچ او کو غفلت برتنے کے الزام میں معطل کر دیا ہے۔

حطار پولیس تھانے کے محرر واجد خان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مقتول سہیل کی بہن کے قتل کا مقدمہ بھی ملزمان کے خلاف درج کر دیا گیا ہے۔ ان کے بقول ایک ملزم کو گرفتار کرلیا گیا ہے جب کہ دوسرے کی گرفتاری کے لئے کوششیں کی جا رہی ہے۔

واقعے کا پس منظر

30 برس کے محمد سہیل خان ایبٹ آباد سے شائع ہونے والے ایک مقامی اخبار کے علاوہ اردو ہندکو کے ایک نجی ٹیلی وژن کے ٹو سے منسلک تھے۔ انہیں 16 اکتوبر 2018 کو مقامی افراد نے مبینہ طور پر گولیاں مار کر قتل کر دیا تھا۔ محمد سہیل خان کے قتل کا الزام مسرت اقبال اور ان کے دو بیٹوں علی شیر اور ہمایوں پر لگایا گیا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ قبل ان تینوں ملزمان کو ماڈل کورٹ نے عدم ثبوت کی بنیاد پر بری کر دیا تھا۔

ماڈل کورٹ کے فیصلے کے بارے میں سہیل خان کے بھائی فرخ شہزاد نے کہا کہ انہوں نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔ اس اپیل کے دائر ہونے کے بعد فرخ شہزاد کے بقول مخالفین نے صلح کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔

فرخ شہزاد نے کہا کہ اسی دباؤ کو بڑھانے کے سلسلے میں پچھلے ماہ 13 اپریل کو مسرت اقبال، ان کے بیٹوں اور دیگر ساتھیوں نے ان کے والد پر تشدد کیا اور اس سلسلے میں باقاعدہ پولیس کو رپورٹ کر کے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں ہمایوں نے عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کرلی ہے۔

حطار پولیس تھانے کے محرر واجد خان نے 13 اپریل کو مقتول صحافی سہیل کے والد کے خلاف تشدد کے واقعہ میں متعدد افراد کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور گیارہ ملزمان کےگرفتار کرنے کی تصدیق کی۔ اس نے کہا کہ ہمایوں سمیت 13 اپریل کے مقدمے میں نامزد بعض ملزمان نے مقامی عدالت سے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کر لی تھی۔

پانچ مئی کا واقعہ

ہمایوں اور ان کے والد مسرت اقبال کے خلاف 5 مئی کو گھر میں گھس کر سہیل خان کی بہن ردا کو قتل کرنے کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔

اس واقعے میں پولیس نے مسرت اقبال کو گرفتار کرلیا ہے جب کہ ہمایوں فرار ہو چکا ہے۔ مقتولہ ردا بی بی کا شوہر مقتول صحافی محمد سہیل کے مقدمہ قتل میں گواہ ہے۔ فرخ شہزاد کا کہنا تھا کہ دراصل ملزمان ان کے بہنوئی کو قتل کرنے گھر میں گھس گئے تھے مگر وہ گھر پر نہیں تھا اسی وجہ سے ملزمان نے ان کی بہن کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

فرح شہزاد کا کہنا ہے کہ ماڈل کور کے فیصلے سے قبل انہوں نے کئی بار متعلقہ پولیس تھانے سے تحفظ فراہم کرنے کی درخواست کی تھی۔ جب کہ مقتول صحافی سہیل خان نے قتل ہونے سے قبل ہری پور کے سابق ضلعی پولیس افسر سے کئی بار ملاقات کی تھی۔

حطار پولیس تھانے کے عہدیداروں نے تصدیق کی ہے کہ مقتول صحافی سہیل خان کے خاندان کی جانب سے ملزمان کی جانب سے خطرات کی نشاندہی کی گئی تھی اور کہا کہ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً کارروائیاں کی گئی ہے۔

ملزمان مبینہ طور پر بہت با اثر ہیں
فرخ شہزاد کے بقول ان کے بھائی سہیل خان نے منشیات فروشوں کے خلاف رپورٹنگ کی تھی جس پر مسرت اقبال، ان کے بیٹے اور ساتھی سخت ناراض تھے اور ان کی طرف سے سہیل خان کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔ فرخ شہزاد نے الزام لگاتے ہوئے بتایا کہ مبینہ منشیات فروشوں کے خلاف خبر دینے کے بعد ملزمان نے نہ صرف دھمکیاں دیں بلکہ اس دوران ان کی آپس میں تلخ کلامی اور گالی گلوچ بھی ہوئی جس کے بعد شام کے وقت ان کے بھائی کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا۔

فرخ شہزاد نے الزام لگایا کہ مسرت اقبال، ان کے بیٹے اور قریبی ساتھی نہ صرف منشیات فروشی میں ملوث ہیں بلکہ مقامی پولیس تھانوں میں ان کے خلاف مقدمات بھی درج ہیں۔

پولیس حکام نے فرخ شہزاد کے مسرت اقبال اور ان کے بیٹوں پر منشیات فروشی اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے الزام پر کسی قسم کا ردعمل کا اظہار نہیں کیا تاہم اُنہوں نے ملزمان کے خلاف پہلے بھی مقدمات درج کرنے کی تصدیق کی ہے۔

بارہا کاوشوں کے باوجود ملزمان یا ان کے قریبی رشتہ داروں سے مقتول صحافی سہیل خان کے بھائی فرخ شہزاد کے لگائے گئے الزامات پر رد عمل معلوم کرنے کے لئے رابطہ نہیں ہوسکا۔ مقامی سیاسی و سماجی کارکن حتیٰ کہ صحافی بھی اس واقعے پر کسی قسم کا موقف دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

مقامی پولیس تھانے کے ایک اہلکار نے ملزمان کے خلاف پہلے سے مقدمات درج کرنے کی تصدیق کی ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کے لئے سرگرم فریڈم نیٹ ورک کے ڈائریکٹر جنرل اقبال خٹک نے مقتول صحافی کی بہن کو قتل کرنے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے خیبر پختونخوا حکومت سے متاثرہ خاندان کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

فریڈم نیٹ ورک کی جاری کردہ حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں برس اپریل کے مہینے کے دوران ملک بھر میں صحافیوں کے خلاف تشدد کے 19 واقعات ہوئے ہیں جن میں 24 اپریل کو کوئٹہ میں صحافی عبدالوحید رئیسانی کا نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل اور 20 اپریل کو سینئر صحافی ابصار عالم پر اسلام آباد میں قاتلانہ حملہ سر فہرست ہیں۔

ہری پور پریس کلب کے صدر ذاکر حسین تنولی کا کہنا تھا کہ مختصر عرصے میں ضلع ہری پور میں دو صحافی سہیل خان اور بخش الٰہی قتل ہوئے اور دونوں کے قتل کے ملزمان عدالتوں سے بری ہوئے ہیں جس کے بعد ضلع بھر کے صحافیوں میں عدم تحفظ کا احساس اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حالیہ واقعے میں قتل ہونے والے صحافی کی بہن کو بھی ٹارگٹ کیا گیا ہے جس سے ساری دنیا سمجھ اور دیکھ سکتی ہے کہ ایک گھریلو خاتون کو، جس کا صحافت اور سیاست وغیرہ سے دور کا بھی تعلق نہیں تھا، کیوں قتل کیا گیا ہوگا۔

ذاکر حسین تنولی کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے قتل کے بعد کچھ دن تک تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر واویلا ہوتا رہا مگر اس کے بعد کبھی بھی یہ دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی کہ وسائل کے بغیر موجود صحافی کس طرح تنہا منظم مافیا سے لڑ سکتے ہیں جس پر اُنھیں ملکی اور بین الاقوامی تنظیموں سے شکوہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں