کابل خودکش دھماکا: ہلاکتوں کی تعداد 64 ہوگئی، 187 زخمی

کابل (ڈیلی اردو) افغانستان کے دارالحکومت کابل کے علاقے دشت برچی میں ہفتے کو ہونے والے ایک خود کش کار بم دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 64 ہوگئی ہے اور 187 سے زائد زخمی ہوگئے۔

وزارت داخلہ کے ایک سینیئر عہدے دار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر غیر ملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ یہ دھماکے اس وقت ہوئے جب طالبات سید الشہدا سکول سے چھٹی کے بعد اپنے گھروں کو روانہ ہو رہی تھیں۔

وزارت صحت کے عہدیدار نے غیر ملکی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ ہنگامی عملہ بم دھماکے میں شدید زخمی ہونے والے درجنوں افراد کے علاج میں مصروف ہیں۔ زخمیوں کی اتنی بڑی تعداد سے انہیں خدشہ ہے کہ ہلاکتوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔

افغان وزارت داخلہ کے عہدیدار نے تصدیق کردی ہے کہ دشت برچی کے سید الشہدا سکول کے باہر خودکش کار بم دھماکے اور مارٹر حملوں میں کم از کم 60 سے زائد افراد ہلاک اور 180 سے زائد زخمی ہو گئے۔

خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق زخمیوں میں زیادہ تر طالبات شامل ہیں اور افغان صدر اشرف غنی نے اس حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا ہے۔

وزارت داخلہ کے ایک سینئر عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر رائٹرز کو بتایا کہ سید الشہدا اسکول سے لائی جانے والی زیادہ تر لاشیں طلبہ کی ہیں۔

افغان ٹی وی چینل طلوع نیوز کی فوٹیج اسکول کے باہر دردناک مناظر کی منظر کشی کر رہی ہے جہاں سڑک پر خون میں لت پت کتابیں اور اسکول بیگ پڑے ہیں اور مقامی افراد اپنے تئیں مدد کر کے زخمیوں کو ہسپتال منتقل کر رہے تھے۔

ایک عینی شاہد نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر رائٹرز کو بتایا کہ یہ کار بم دھماکا تھا جو اسکول کے مرکزی دروازے کے سامنے ہوا، دھماکے میں ہلاک افراد میں سے زیادہ تر وہ طالبات تھیں جو اسکول ختم ہونے کے بعد گھر جا رہی تھیں۔

https://twitter.com/TOLOnews/status/1391031946994724864?s=19

وزارت داخلہ کے ترجمان طارق آریان کے مطابق دھماکے میں 55 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا کہ اسکول کو کیوں ہدف بنایا گیا۔

کابل ان دنوں ہائی الرٹ پر ہے کیونکہ واشنگٹن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ 11 ستمبر تک تمام امریکی فوجیوں کا افغانستان سے انخلا ہو جائے گا اور افغان حکام کے مطابق اس اعلان کے بعد طالبان نے ملک بھر میں حملے تیز کر دیے ہیں۔

ابھی تک کسی بھی گروپ نے ہفتے کو کیے گئے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی جبکہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس حملے میں اپنے گروپ کے ملوث ہونے کی تردید کرتے ہوئے واقعے کی مذمت کی ہے۔

ہفتے کے روز دھماکے مغربی کابل میں ہوئے جو شیعہ اکثریتی علاقہ ہے جسے گزرے سالوں کے دوران داعش کئی مرتبہ نشانہ بنا چکا ہے۔

وزارت تعلیم کی ترجمان نجیبہ آریان نے رائٹرز کو بتایا کہ یہ لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے ایک مشترکہ ہائی اسکول ہے جس میں تین شفٹوں میں تعلیم دی جاتی ہے اور اسکول کی دوسری شفٹ طالبات کے لیے مختص ہے۔

انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں زیادہ تر شیعہ ہزارہ طالبات ہیں۔

افغانستان میں یورپی یونین مشن نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ کابل میں دشت برچی کے علاقے میں دہشت گردی کا حملہ قابل مذمت اقدام ہے۔

انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر اسکول میں لڑکیوں کو نشانہ بنانے کا مقصد افغانستان کے مستقبل پر حملہ ہے۔

افغان صدر اشرف غنی نے حملے کا الزام طالبان پر عائد کیا۔

اشرف غنی نے کہا کہ طالبان اپنی ناجائز جنگ اور تشدد کو بڑھا کر ایک بار پھر یہ ظاہر کر چکے ہیں کہ وہ ناصرف موجودہ بحران کو پرامن طریقے سے پر حل کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں بلکہ وہ صورتحال کو پیچیدہ بھی بنانا چاہتے ہیں۔

پاکستان کا اظہار مذمت

پاکستان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ایک اسکول میں حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستان نے کابل کے ایک اسکول میں حملوں کی مذمت کرتے ہوئے حکومت اور افغانستان کے عوام سے دلی تعزیت کی ہے۔

دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق پاکستان نے زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرتا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ دکھ کی اس گھڑی میں پاکستان دہشت گردی کے ناسور کے خاتمے کی جدوجہد میں افغان بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور پاکستان، افغانستان میں امن، خوشحالی اور ترقی کے لیے اپنا تعاون جاری رکھے گا۔

یاد رہے کہ پچھلے سال طالبان اور امریکہ نے 20 سالہ جنگ کے خاتمے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں القاعدہ کے حملوں کے بعد امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر فوج کشی کردی تھی۔

اس حملے کا الزام القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر عائد کیا گیا تھا اور امریکا کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت اسامہ بن لادن کو تحفظ فراہم کررہی ہے۔

اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ طالبان کی جانب سے سیکیورٹی کی گارنٹی فراہم کرنے کے بدلے امریکا وہاں سے اپنی تمام فوج واپس بلا لے گا۔

اس معاہدے میں یہ بھی طے پایا تھا کہ طالبان افغانستان کی حکومت سے امن مذاکرات کریں گے، ان مذکرات کا آغاز گزشتہ سال ہوا تھا لیکن اس کے بعد سے یہ تعطل کا شکار ہیں۔

غیر ملکی افواج پر طالبان کے حملوں میں بڑے پیمانے پر کمی واقع ہوئی ہے لیکن وہ افغان حکومت کے دستوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

گذشتہ ماہ امریکا نے کہا تھا کہ وہ فوج کے انخلا کی تاریخ یکم مئی سے بڑھا کر 11 ستمبر کررہا ہے جس پر طالبان نے متنبہ کیا تھا کہ اس اقدام کے معاہدے پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں