اسرائیل اور حماس کی لڑائی چوتھے روز بھی جاری، 90 فلسطینی اور 7 اسرائیلی ہلاک

یروشلم + غزہ (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر فوج بھیجنا شروع کر دی ہے اور خبردار کیا ہے کہ وہ زمینی آپریشن شروع کر سکتا ہے۔

اسرائیلی افواج کے سربراہان ممکنہ آپریشن کے لیے منصوبہ بندی کر رہے ہیں جبکہ اسرائیل ڈیفینس فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا ہے کہ اس کے فوجی ’جنگ کے لیے تیار رہیں۔‘

اگرچہ امریکی صدر جو بائیڈن نے حال ہی میں اس امید کا اظہار کیا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری کشیدگی میں جلد کمی آئے گی تاہم بدھ کی رات کو شدید بمباری کے بعد جمعرات کو غزہ کی سرحد پر اسرائیلی افواج اکٹھی ہونا شروع ہو گئی ہیں۔

دوسری جانب حماس کے مطابق غزہ میں جاری بمباری سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 83 ہوگئی ہے جس میں 17 بچے بھی شامل ہیں۔ پیر سے جاری پرتشدد واقعات میں اب تک 487 افراد زخمی اور ہزاروں بے گھر ہو چکے ہیں۔

اسرائیل نے جمعرات کی صبح، جب فلسطینی عید کی نماز کی تیاریاں کر رہے تھے، غزہ پر فضائی بمباری شروع کر دی تھی جس میں شہر کے بیچ واقع ایک چھ منزلہ عمارت بھی تباہ ہو گئی ہے۔

دریں اثناء تل ابیب کے مرکزی بین گریون ایئر پورٹ پر آنے والی پروازوں کو فلسطینیوں کی طرف سے پھینکے جانے والے راکٹوں کی وجہ سے جنوب میں رامون ایئرپورٹ کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔

گذشتہ شب حماس نے یروشلم اور تل ابیب کی جانب راکٹ داغے تھے جن میں سے زیادہ تر اسرائیل کے آئرن ڈوم دفاعی سسٹم نے ناکارہ بنا دیے۔

غزہ میں موجود بی بی سی کے نامہ نگار کے مطابق عید سے پچھلی شب یہاں کے رہائشیوں کے لیے 2014 کے بعد ’سب سے مشکل اور طویل رات تھی۔‘

اسرائیل نے اپنے اہداف میں اب خفیہ اداروں کے دفاتر، بینک اور عسکریت پسند تنظیم حماس کی بحری تنصیبات کو بھی شامل کر لیا ہے۔

دوسری جانب غزہ میں صحت کے حکام نے بتایا ہے کہ وہ گذشتہ شب ہونے والی کئی ایسی اموات کی تفتیش کر رہے ہیں جن کے بارے میں شک ہے کہ وہ زہریلی گیس میں سانس لینے کے باعث ہلاک ہوئے۔ ان لاشوں سے نمونے حاصل کر لیے گئے ہیں اور تفتیش جاری ہے۔

بدھ کو اسرائیل کی جانب سے فضائی حملے میں حماس کے ایک سینیئر کمانڈر کی ہلاکت اور غزہ میں کئی منزلہ عمارت کی تباہی کے بعد حماس کے عسکریت پسندوں نے اسرائیل پر درجنوں راکٹ حملے کیے۔

اطلاعات کے مطابق جنوبی اسرائیل کے متعدد مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کے نتیجے میں ایک کم عمر بچہ بھی شدید زخمی ہوا ہے۔

اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے امید ظاہر کی ہے کہ غزہ میں جاری جھڑپوں کی شدت میں جلد کمی آئے گی۔

عالمی طاقتیں اس وقت خطے میں جنگ بندی پر زور دے رہی ہیں اور واشنگٹن نے کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان بات چیت کروانے کے لیے اپنا خصوصی نمائندہ بھی بھیجیں گے۔

صدر بائیڈن نے بدھ کو اسرائیلی صدر بنیامن نتن یاہو سے گفتگو کے بعد کہا ‘مجھے امید ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد ختم ہو جائے گا تاہم اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔’

اگرچہ صدر بائیڈن نے یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ بات کس بنا پر کہہ رہے ہیں لیکن اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بتایا گیا تھا کہ نتن یاہو نے ان سے کہا تھا کہ اسرائیل ‘حماس اور غزہ میں متحرک تمام دہشت گرد تنظیموں پر حملے جاری رکھے گا۔’

خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے اس سے قبل غزہ میں مکمل جنگ کا خطرہ ظاہر کیا تھا اور سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے کہا تھا کہ انھیں غزہ میں جاری تشدد پر گہری تشویش ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ گذشتہ 2 دنوں میں فلسطینی عسکریت پسندوں کی طرف سے 1000 سے زیادہ راکٹ فائر کیے گئے ہیں۔

جواب میں اسرائیل نے غزہ میں سینکڑوں فضائی حملے کیے ہیں اور منگل اور بدھ کے روز کئی منزلہ عمارتوں کو تباہ کر دیا ہے۔

اسرائیل میں جاری فسادات

دوسری جانب اسرائیل کے عرب آبادی والے قصبوں میں ہنگامہ آرائی کے واقعات پیش آئے ہیں۔ اسرائیل نے ملک کے وسطی شہر لُد میں ہنگاموں کے بعد وہاں ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کیا ہے اور سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

لُد شہر تل ایبب کے قریب واقع ہے جہاں منگل کے روز ہنگامہ آرائی ہوئی۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کی حکومت اسرائیل کو اندرونی اور بیرونی دشمنوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی تمام تر طاقت کا استعمال کرے گی۔

لُد کے علاوہ اسرائیل کے شہر عکا اور حیفا میں بھی کئی پرتشدد واقعات پیش آئے۔

اسرائیلی ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ تل ابیب کے قریب ایک علاقے میں انتہائی دائیں بازو کا ایک مشتعل ہجوم ایک بظاہر عرب شہری کو مار مار کر بے ہوش کر دیتا ہے۔ زخمی ہونے والے شخص کی حالت تشویشناک ہے اور وہ اس وقت تل ابیب کے ایک ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

غزہ میں کیا ہو رہا ہے؟

فلسطینی عسکریت پسندوں نے پیر کی رات اسرائیل پر راکٹ داغنے شروع کیے۔ اسرائیل نے جواب میں غزہ پر فضائی حملے شروع کیے ہیں۔

اسرائیل نے بدھ کے روز کہا کہ اس نے غزہ میں حماس کے ایک سینئر کمانڈر کو ہلاک کرنے کے لیے علاوہ راکٹ لانچ کرنے والی جگھوں کو نشانہ بنایا ہے۔

حماس نے اپنے ایک کمانڈر کی موت کی تصدیق کی ہے۔ حماس کے زیر انتظام محکمۂ صحت کے مطابق حالیہ تشدد میں 53 افراد ہلاک اور 300 سے زیادہ زخمی ہو ئے ہیں۔

اسرائیل کی ڈیفنس فورسز نے کہا ہے کہ اس نے بدھ کے روز 2014 کے بعد غزہ پر سب بڑے حملے کیے ہیں۔

حماس نے کہا کہ ’دشمن‘ رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

رہائشی عمارتوں کے مکینوں کو اسرائیل کے فضائی حملے سے پہلے ان عمارتوں کو خالی کرنے کا کہا گیا تھا لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان عماتوں پر حملے کے وقت وہ اب بھی کچھ سویلین ان عمارتوں میں موجود تھے۔

تشدد کیسے شروع ہوا؟

اپریل کے وسط میں رمضان المبارک کے آغاز کے بعد سے تناؤ بڑھتا چلا گیا ہے اور اس سلسلے میں سلسلہ وار طور پر کئی واقعات ہوئے جسے بدامنی پھیلتی رہی۔

رمضان کے آغاز کے ساتھ ہی دمشق گیٹ کے باہر کھڑی کی جانے والی سکیورٹی رکاوٹوں کے خلاف مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں اور پولیس کے درمیان رات کے وقت جھڑپیں ہونے لگیں۔

حماس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ حرم الشریف اور قریبی عرب آبادی والے علاقے شیخ جرّاح سے پولیس کو ہٹائے۔

مشرقی یروشلم میں شیخ جرّاح کے علاقے میں یہودی آبادکاروں نے فلسطینی خاندانوں کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے جس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے بے دخل ہونے کا خطرہ ہے۔

مشرقی بیت المقدس اسرائیل اور فلسطین تنازع میں مرکزی اہمیت رکھتا ہے۔ دونوں فریق اس پر اپنے حق کا دعویٰ کرتے ہیں۔

اسرائیل نے سنہ 1967 میں ہونے والی چھ روزہ جنگ کے بعد سے مشرقی بیت المقدس پر قبضہ حاصل کر لیا ہے اور تاہم اسرائیل کے اس اقدام کو عالمی برادری کی اکثریت نے تسلیم نہیں کیا ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتی ہیں تاہم اسرائیل پورے شہر کو اپنا دارالحکومت کہتا ہے۔

دوسری جانب فلسطینیوں کا دعویٰ ہے کہ مشرقی بیت المقدس ان کی ایک ‘متوقع آزاد ریاست’ کا مستقبل کا دارالحکومت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں