افغان صدر کے الزامات: کیا پاک، افغان تعلقات میں سرد مہری بڑھ رہی ہے؟

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان نے افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے پاکستان پر طالبان کی حمایت اور انہیں مالی مدد فراہم کرنے کے الزامات کو غیر ذمہ دارانہ اور من گھڑت قرار دیتے ہوئے اسلام آباد میں افغان سفیر کو طلب کر کے احتجاج کیا ہے۔

پیر کو دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے نہ صرف دونوں ممالک کے درمیان اعتماد میں کمی اور ماحول بھی خراب ہو جاتا ہے۔

واضح رہے کہ پاکستانی دفترِ خارجہ کا یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ دنوں افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی جانب سے جرمن جریدے کو انٹرویو میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ “پاکستان، طالبان کو منظم انداز میں مدد فراہم کرتا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ طالبان کو پاکستان سے رسد ملتی ہے۔ ان کی مالی اعانت اور بھرتی بھی وہیں سے ہوتی ہے۔

افغان صدر نے مزید کہا تھا کہ “طالبان کی فیصلہ سازی کے حوالے سے کوئٹہ شوریٰ، میران شاہ شوریٰ اور پشاور شوریٰ بھی پاکستان میں ہی ہیں اور ان کا پاکستانی ریاست کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔”

ایک سوال کے جواب میں صدر غنی کا کہنا تھا کہ امریکی انخلا کے بعد افغانستان میں ان کا کردار بہت معمولی سطح کا رہ جائے گا اور اب افغانستان سے دوستی یا دشمنی کا انحصار پاکستان پر ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ افغان صدر کی جانب سے الزامات میں کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ہے بلکہ یہی الزامات وہ گزشتہ پانچ برسوں سے پاکستان پر عائد کرتے چلے آ رہے ہیں۔

سابق سیکریٹری دفاع لفیٹننٹ جنرل ریٹائرڈ آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ صدر اشرف غنی کی جانب سے الزامات کی بوچھاڑ دراصل اقتدار کو دوام کے حوالے سے ہے۔ کیوں کہ افغانستان میں قیامِ امن کا سب سے زیادہ نقصان بظاہر انہیں کو ہونا ہے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ قیامِ امن کے حوالے سے کوششوں میں افغان صدر ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔

نرل آصف یاسین ملک کا مزید کہنا تھا کہ افغان قیادت اپنے ملک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

اُن کے بقول پاکستانی حکومت نے کبھی بھی سرحد پار سے کیے جانے والے حملوں کے حوالے سے افغان حکومت کو براہ راست موردِ الزام نہیں ٹھیرایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت اسی صورت میں ہی پنپ سکے گی جب دہشت گردوں کے ٹھکانے مکمل طور پر تباہ ہو جائیں۔

سابق سیکریٹری دفاع کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کی طرف سے افغان کارگو کو مکمل تحفظ حاصل ہے اور کراچی سے طورخم تک کسی بھی کنٹینر پر کوئی حملہ نہیں ہوتا ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری جانب سے بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے مستقل بنیادوں پر ختم کیے جائیں تاکہ دونوں ممالک کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کے بجائے روزگار کے مواقع میسر ہوں۔

کیا پاک، افغان تعلقات کشیدہ ہو رہے ہیں؟

عید الفطر سے قبل پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے دورۂ کابل کے پیشِ نظر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کو مزید فروغ ملے گا۔ تاہم افغان قیادت کی جانب سے نئے الزامات نے ہوا کا رُخ ایک نئی سمت کو موڑ دیا ہے۔

حال ہی میں صوبہ بلوچستان کے سرحدی علاقے ژوب میں افغانستان کی جانب سے ایک حملے کی نتیجے میں فرنٹئیر کور (ایف سی) کے چار جوان ہلاک جب کہ چھ زخمی ہو گئے تھے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ دہشت گردوں کی جانب سے حملہ ایسے وقت میں کیا گیا جب پاکستانی سیکیورٹی فورسز سرحد پر باڑ لگانے میں مصروف تھے۔

یاد رہے کہ پاکستانی فوج کی جانب سے افغانستان سے متصل 2600 کلومیٹر پر باڑ لگانے کا کام 2017 سے جاری ہے۔ البتہ پاکستانی حکام یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ سرحد پار سے سیکیورٹی فورسز اور سویلین آبادی کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی آرمی چیف کے ساتھ صدر غنی کی ملاقات کے بعد الزامات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد بڑھے گا۔

افغان امور کے ماہر اور سینئر صحافی سمیع یوسفزئی افغان صدر کے بیان کو پاکستان پر طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے مزید دباؤ کے طور پر دیکھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں بتایا کہ امریکی اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد طالبان کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کے بعد پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بھی سردمہری آ رہی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ان الزامات کے باوجود صدر غنی، جنرل باجوہ اور برطانوی آرمی چیف کے درمیان ملاقات کے بعد وہ کافی پرُ امید ہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جلد بحال ہو جائیں گے۔

افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کے حوالے سے اتوار کو امریکی وزیرِ خارجہ نے پاکستانی ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ٹیلی فون پر بات چیت بھی کی تھی۔

گفتگو کے دوران افغان امن عمل، انسدادِ دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کی پیش رفت اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں