غزہ میں اسرائیلی بمباری سے 61 بچے اور 36 خواتین سمیت 212 فلسطینی ہلاک، 1305 زخمی

غزہ + یروشلم (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی) فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان جاری لڑائی دوسرے ہفتے میں داخل ہو گئی ہے اور اب تک اس لڑائی میں 200 سے زائد فلسطینی اور 10 اسرائیلی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اسرائیل کے لڑاکا طیاروں نے پیر کی صبح ایک مرتبہ پھر غزہ شہر کے مختلف علاقوں کو نشانہ بنایا ہے۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق اسرائیلی فوج کی کارروائی 10 منٹ تک جاری رہی جس سے پورا شہر لرز اٹھا۔

بتایا جاتا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے پیر کی صبح کی جانے والی کارروائی اتوار کے مقابلے میں زیادہ شدید اور بڑے پیمانے پر تھی۔

یاد رہے کہ اسرائیلی جیٹ طیاروں نے اتوار کو غزہ میں تین عمارتوں پر بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں 42 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ہلاکتوں کے اعتبار سے یہ سب سے زیادہ ہلاکت خیز دن تھا۔

غزہ میں حماس کے زیر انتظام وزارت صحت کا کہنا ہے کہ حالیہ کشیدگی کے دوران گذشتہ ہفتے سے شروع ہونے والے اسرائیلی فضائی حملوں میں اب تک 212 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔

بیان کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 61 بچے اور 36 خواتین شامل ہیں جبکہ اب تک 1305 افراد زخمی ہوئے ہیں۔

دوسری طرف اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے غزہ میں 130 مسلح جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔

اسی دوران مسلح گروہوں کے راکٹ حملوں سے اسرائیل میں 2 بچوں اور ایک فوجی اہلکار سمیت 10 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاع ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان پیر سے لڑائی جاری ہے۔

اسرائیل کا ہیڈ کوارٹر پر بمباری کا دعویٰ

اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس کے لڑاکا طیاروں نے شمال میں غزہ کی پٹی پر واقع حماس کے اندرونی سکیورٹی ہیڈ کوارٹر پر بمباری کی ہے۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی دفاعی فورسز کا کہنا ہے کہ یہ عمارت حماس کے ’مرکزی انفراسٹرکچر کا حصہ ہے جہاں تنظیم کی فوجی انٹیلیجنس کام کرتی ہے۔‘

ان فضائی حملوں کے بعد اب تک وہاں ہلاکتوں یا زخمیوں کی اطلاعات سامنے نہیں آئیں۔

اسرائیل نے پیر کی صبح کارروائی ایسے موقع پر کی ہے جب اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو نے اتوار کو ایک بیان میں کہا تھا کہ وہ فوری طور پر لڑائی ختم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔

ایک ٹی وی انٹرویو میں اسرائیلی وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ “ہم حماس کی صلاحیت اور ان کی خواہش کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ دوبارہ ہم پر حملہ آور نہ ہو سکیں۔”

نیتن یاہو کے بقول، “حماس نے ہم پر حملہ کیا اور یروشلم پر بلا امتیاز راکٹ برسائے۔ ہم امن کی بحالی کے لیے کام کریں گے جس کے لیے کچھ بھی کرنا پڑے ہم وہ کریں گے۔”

دوسری جانب امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے پیر کو اپنے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری تنازع کو فوری طور پر روکنے کے لیے انہوں ںے قطر کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ فریقین کے درمیان جاری لڑائی کے دوران انسانی جانوں کے ضیاع پر بہت رنج ہے۔

امریکہ کے محکمۂ خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق اینٹی بلنکن اور ان کے مصری ہم منصب سامح شکری نے تمام فریقین پر کشیدگی اور تشدد کے خاتمے پر زور دیا ہے۔

بیان کے مطابق اینٹنی بلنکن اور سعودی وزیرِ خارجہ شاہ فیصل بن فراح السعود نے بھی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں اور تشدد کے خاتمے پر تبادلہ خیال کیا۔

اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جاری لڑائی پر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بھی اتوار کے روز منعقد ہوا تھا جس میں یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ فریقین کے درمیان تشدد کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے۔

اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفان ڈوجاریک نے ایک بیان میں کہا کہ “اسرائیلی فضائی حملوں میں بڑھتی ہوئی سویلین اموات پر سیکریٹری جنرل کو تشویش ہے جن میں بچوں سمیت ایک ہی خاندان کے 10 افراد کی ہلاکت کا واقعہ بھی شامل ہے۔”

بیان میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری جنرل فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ شہریوں اور میڈیا ہاؤسز کو نشانہ بنانے سے گریز کریں کیوں کہ یہ عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔

خیال رہے کہ ایک ہفتے قبل شروع ہونے والی لڑائی کے باوجود اسرائیل اور حماس تاحال جنگ بندی پر آمادہ نہیں۔ حالیہ لڑائی کو 2014 کی جنگ کے بعد بدترین لڑائی قرار دیا جا رہا ہے۔

حالیہ لڑائی کا آغاز یروشلم کے مضافاتی علاقے ‘شیخ جراح’ میں یہودی آباد کاروں کی جانب سے فلسطینی عرب رہائشیوں کی بے دخلی کی کوششوں اور مسجد اقصیٰ کے احاطے میں ہونے والی جھڑپوں کے بعد ہوا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں