کیوبا: گرفتار پاکستانی قیدی سیف اللہ پراچہ کی گوانتاناموبے جیل سے رہائی کی منظوری

واشنگٹن (ڈیلی اردو) امریکہ کے کیوبا میں قائم قید خانے گوانتاناموبے میں قید سب سے معمر قیدی 73 سالہ پاکستانی سیف اللہ پراچہ کو رہا کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے۔

خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کے مطابق، سیف اللہ پراچہ کی وکیل نے تصدیق کی ہے کہ گوانتانامو بے میں 16 سال سے قید پاکستانی کی رہائی کی منظوری پیر کو دی گئی۔

سیف اللہ پراچہ کو القاعدہ سے تعلق کے شبہے میں گرفتار کیا گیا تھا۔ البتہ ان پر کبھی کسی جرم میں ملوث ہونے کا کوئی الزام ثابت نہیں ہو سکا۔

سیف اللہ پراچہ کی وکیل شلبی سولوین بنس کا کہنا تھا کہ ان کے ہمراہ دو دیگر افراد کو بھی قیدیوں کی معاملات کی جانچ کرنے والے بورڈ نے کلیئر قرار دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ عمومی طریقۂ کار کے مطابق، سرکاری اعلامیے میں بورڈ کے اس فیصلے کی وجوہات شامل نہیں ہیں، جب کہ اس میں کہا گیا ہے کہ سیف اللہ پراچہ امریکہ کے لیے مزید خطرے کا سبب نہیں ہیں۔

امریکہ کی حکومت کے اس فیصلے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو فوری طور پر رہا کیا جانے والا ہے۔ اس سے قبل پاکستان کی حکومت سے ان کی واپسی سے متعلق گفت و شنید کی جائے گی۔

امریکہ کے صدر جوبائیڈن کی انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ بھی گوانتانامو بے کا قید خانہ بند کرنے کے لیے کیے جانے والے اقدامات پھر سے بحال کرنا چاہتی ہے۔ قبل ازیں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں ان اقدامات کو روک دیا تھا۔

سیف اللہ پراچہ کی وکیل کا کہنا تھا کہ وہ ممکنہ طور پر آئندہ چند ماہ میں اپنے گھر لوٹ جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں لوگ ان کی واپسی چاہتے ہیں۔ جہاں تک واضح ہو رہا ہے کہ ان کی واپسی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

پینٹاگون کے ترجمان نے اس حوالے سے فوری طور پر کوئی بیان جاری نہیں کیا۔

سیف اللہ پراچہ امریکہ میں بھی مقیم رہے تھے جب کہ ان کی نیو یارک میں جائیداد بھی تھی۔ وہ پاکستان میں کاروبار کرتے تھے۔ جب کہ وہ دولت مند شخصیت مانے جاتے تھے۔

حکام نے ان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ القاعدہ کے معاون تھے اور اُنہوں نے امریکہ میں 11 ستمبر 2001 کو ہونے والے حملوں کی سازش میں ملوث دو افراد کو بینک کے ذریعے پیسے منتقل کیے تھے۔

سیف اللہ خالد نے ان پر لگنے والے الزامات کی تردید کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ جن افراد کو انہوں نے رقم منتقل کی ہے ان کا تعلق القاعدہ سے ہے، جب کہ انہوں نے کسی بھی قسم کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کی تردید کی تھی۔

سیف اللہ پراچہ کو 2003 میں تھائی لینڈ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد ازاں ستمبر 2004 میں انہیں گوانتانامو بے منتقل کیا گیا تھا۔

گزشتہ برس نومبر میں سیف اللہ پراچہ، جو ذیابیطس اور دل کے عارضے کا شکار ہیں، آٹھویں بار قیدیوں کے معاملات کا جائزہ لینے والے بورڈ کے سامنے پیش ہوئے تھے۔ یہ بورڈ صدر اوباما نے اپنے دور میں قائم کیا تھا جس کا مقصد اس بات کا جائزہ لینا تھا کہ قیدیوں کی رہائی پر وہ دوبارہ امریکہ کے لیے خطرے کا باعث تو نہیں بنیں گے۔

گوانتانامو بے جیل میں 2003 میں 700 قیدی تھے جن کی تعداد مسلسل کم ہوتی رہی ہے۔ اس وقت وہاں 40 قیدی ہیں جن میں سیف اللہ پراچہ بھی شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں