اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی ہوگئی، امریکی صدر کا خیر مقدم

غزہ (ڈیلی اردو) گیارہ دن کے حملوں اور خون ریزی کے بعد اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کا آغاز ہو گیا ہے۔

دونوں فریقین کے درمیان جنگ بندی پر عملدرآمد مقامی وقت کے مطابق جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب رات دو بجے سے شروع ہوا ہے۔ اس معاہدے پر عملدرآمد نے گذشتہ گیارہ روز سے جاری کشیدگی کو ختم کیا ہے جس میں 240 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غزہ سے ہے۔

مصری وفود جنگ بندی پرعملدرآمد کی نگرانی کریں گے اور مصر کے دو وفود کو تل ابیب اور فلسطینی علاقوں میں روانہ کیا جائےگا۔

اسرائیلی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ اسرائیلی کابینہ نے امریکا کی طرف سے شدید دباؤ کے بعد جنگ بندی کا فیصلہ کیا جب کہ اسرئیل کی سکیورٹی کابینہ نے غیر مشروط جنگ بندی کی منظوری دی تھی۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ 11 روز کے دوران اسے غزہ میں بڑی کامیابیاں ملی ہیں۔

ادھر حماس نے جنگ بندی کے بعد جیت کا اعلان کیا ہے جب کہ غزہ میں ہزاروں افراد نے جیت کا جشن بھی منایا۔

فلسطینی وزارت صحت کےمطابق اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جاری جنگ میں اب تک 232 فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں جن میں 65 بچے بھی شامل ہیں جب کہ 1900 افراد زخمی ہیں اور 10 ہزار سے زائد بے گھر ہوچکے ہیں۔

فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہےکہ غزہ میں انسانی اورصحت کی صورتحال پریشان کن ہے، پناہ گاہیں لوگوں سےبھری ہوئی ہیں جس سےکورونا کے پھیلاو کا خطرہ ہے، انسانی بحران پرقابو پانے کے لیے فوری امداد کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے صحت کے شعبے کی بحالی کیلئے 46.6 ملین ڈالر کی ضرورت ہے۔

امریکی صدر بائیڈن کا کہنا ہے کہ غزہ کو انسانی ہمدردی کے تحت امداد فراہم کرنے اور انکلیو میں تعمیر نو کی کوششوں میں امریکہ ’اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے پر عزم ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ ہم فلسطینی حکام کے ساتھ مکمل شراکت داری میں یہ کام کریں گے، حماس کے ساتھ نہیں بلکہ اس اتھارٹی کے ساتھ جو حماس کو گولہ بارود اکٹھا کرنے کی اجازت نہ دے۔‘

ان کا مزید کہنا تھاکہ ’ میں سمجھتا ہو کہ اسرائیلی اور فلسطینی دنوں شہریوں کومحفوظ زندگیاں گزارنے، آزادی، خوشحالی اور جمہوریت کے ثمرات حاصل کرنے کا حق ہے۔‘

یاد رہے کہ رواں ہفتے امریکہ نے اقوام متحدہ کی جانب سے فلسطین کی صورتحال پر مشترکہ اعلامیہ رکوا دیا تھا جس میں اسرائیل سے جارحانہ حملے بند کرنے اور جنگ بندیپر زور دیا گیا تھا۔

اپنے خطاب کے آخر میں امریکی صدر بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اس جانب بڑھنے کا نادر موقع ہے اور میں اس کے لیے کام کرنے کے لیے پر عزم ہوں۔‘

’خدا آپ کا حامی و ناصر ہو اور آئیں مل کر دعا کریں کہ یہ (جنگ بندی کا معاہدہ) جاری رہے۔‘

امریکی صدر بائیڈن نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ کروانے پر اپنی سفارتی ٹیم اور مصر کے صدر السیسی کا شکریہ ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ کروانے میں مصری صدر نے ’اہم کردار‘ ادا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ میری اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے گفتگو کے دوران میں نے ان کے حالیہ کشیدگی کو گیارہ دنوں کے اندر ختم کرنے کے فیصلے کو سراہا ہے۔‘

’میں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے جو میں ہمیشہ سے اس تنازعے میں کہتا آیا ہو کہ امریکہ حماس اور غزہ میں مقیم دیگر دہشت گرد گروہوں کے اندھا دھند راکٹ حملوں سے اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی مکمل حمایت کرتا ہے، جنھوں نے اسرائیل میں بے گناہ متاثرین کی جانیں لی ہیں۔‘

اس کے بات خطاب میں انھوں نے حالیہ کشیدگی کے دوران انسانی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کیا۔

دنوں جانب حملوں میں بچوں کی ہلاکتوں پر بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ان حملوں کے نتیجہ میں بہت سے معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔‘

’میں ان تمام اسرائیلی اور فلسطینی متاثرہ خاندانوں سے دلی اظہار تعزیت کرتا ہوں جنھوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا گو ہوں۔‘

اپنا تبصرہ بھیجیں