میانمار: فوجی بغاوت کے مخالف 1 لاکھ 25 ہزار سے زائد اساتذہ معطل

ینگون (ڈیلی اردو) میانمار میں فوجی بغاوت کی مخالفت کرنے جرم میں اب تک سوا لاکھ سے زائد اساتذہ کو معطل کیا جاچکا ہے۔

برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق میانمار ٹیچرز فیڈریشن سے تعلق رکھنے والے ایک عہدیدار نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ہفتے کے روز تک ایک لاکھ 25 ہزار 900 اساتذہ معطل کیے جاچکے ہیں۔

اساتذہ کی معطلی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے کہ جب نیا تعلیمی سال شروع ہونے میں چند روز باقی ہیں تاہم ملک میں فوجی بغاوت کے بعد شروع ہونے والی مہم کے طور پر اساتذہ اور طلبہ کے والدین کی بڑی تعداد نئے تعلیمی سال کا بائیکاٹ کررہی ہے۔

میانمار میں اساتذہ کے تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار 2 سال پرانے جن کے مطابق اسکول ٹیچرز کی تعداد 4 لاکھ 30 ہزار ہے۔

اس ضمن میں ایک عہدیدار جو خود بھی استاد ہیں، انہوں نے کہا کہ ‘یہ صرف لوگوں کو کام پر واپس آنے کے لیے ڈرانے کے بیانات ہیں، اگر وہ حقیقتاً اتنی بڑی تعداد کو ملازمتوں سےنکالیں گے تو نظام رک جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر وہ واپس کام پر جائیں گے تو ان کے خلاف لگائے گئے الزامات واپس لے لیے جائیں گے۔

اس سلسلے میں میانمار جنتا (فوج) کے ترجمان یا وزارت تعلیم سے مؤقف نہیں مل سکا۔

دوسری جانب میانمار کے سرکاری اخبار نے اساتذہ اور طلبہ سے اسکولوں میں واپس آنے کے لیے زور دیا ہے تا کہ تعلیمی نظام دوبارہ شروع ہوسکے۔

اساتذہ کی تنظیم کے مطابق جامعات کے عملے کے 19 ہزار 500 ملازمین کو بھی ان کے عہدوں سے معطل کردیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ میانمار میں جون میں اسکولوں کے لیے رجسٹریشن کا آغاز ہوگا تاہم کچھ والدین کا کہنا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل نہیں کروائیں گے۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے ایک 14 سالہ لڑکی کے والد کا کہنا تھا کہ ‘میں اپنی بیٹی کا داخلہ اسکول میں نہیں کرواؤں گا کیوں کہ میں اسے فوجی آمریت سے تعلیم نہیں دلوانا چاہتا’۔

میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد بڑے پیمانے پر شروع ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں طلبہ سب سے آگے رہے ہیں جنہوں نے تعلیمی عمل کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا ہے۔

ایک 18 سالہ طالبعلم کا کہنا تھا کہ ‘اگر ہمیں دوبارہ جمہوریت ملے گی تو ہی میں اسکول جاؤں گا’۔

واضح رہے کہ میانمار کا تعلیمی نظام خطے میں سب سے خستہ حال نظاموں میں سے ایک ہے جس نے گزشتہ برس عالمی سروے میں 93 ممالک میں سے 92ویں پوزیشن حاصل کی تھی۔

حتیٰ کہ جمہوریت کی چیمپیئن سمجھی جانے والی آنگ سان سوچی کے دورِحکومت میں بھی مجموعی ملکی پیداوار کا 2 فیصد سے کم حصہ تعلیم پر خرچ کیا گیا تھا۔

واضح رہے کہ یکم فروری کو میانمار کی فوج نے ملک میں منتخب سیاسی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور دیگر سیاست دانوں سمیت آنگ سان سوچی کو گرفتار کرکے ان کے خلاف مختلف الزامات کے تحت مقدمات چلائے جارہے ہیں۔

فوج کے اس عمل کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جو تاحال جاری ہے، جس میں اب تک فورسز کی جانب سے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا گیا، جس کے باعث سیکڑوں مظاہرین ہلاک اور زخمی ہوئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں