طالبان کی پیش قدمی روکنے کیلئے افغان آرمی چیف یاسین ضیا لغمان پہنچ گئے

کابل (ڈیلی اردو/وی او اے) طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان لڑائی مزید شدت اختیار کر گئی ہے۔ طالبان کی پیش قدمی روکنے اور آپریشنز کی قیادت کے لیے افغان آرمی چیف جنرل محمد یاسین ضیا شورش زدہ صوبے لغمان پہنچ گئے ہیں۔

طالبان کی جانب سے جمعے کو لغمان صوبے کے ضلع دولت شاہ پر قبضے کے بعد مزید علاقوں کا کنٹرول سنبھالنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اطلاعات کے مطابق اتوار کو طالبان نے کئی اہم سیکیورٹی پوسٹوں پر قبضے کیے جس کے بعد وہ لغمان صوبے کے دارالحکومت مھترلام کے بالکل قریب پہنچ گئے ہیں۔

لغمان صوبے کے رہائشیوں اور سیکیورٹی ذرائع نے مھترلام کے بعض علاقوں اور قیدیوں کے مرکزی جیل کے قریب گھمسان کی لڑائی کی تصدیق کی ہے۔

لغمان صوبے میں افغان فورسز اور طالبان کے درمیان ہونے والی لڑائی میں فریقین کے جانی نقصان کی اطلاعات ہیں۔ تاہم فوری طور پر اس کی تفصیلات سامنے نہیں آسکیں۔

افغان میڈیا کے مطابق شمالی صوبے بغلان کے کئی اضلاع میں بھی گھمسان کی لڑائی ہوئی ہے جب کہ صوبائی دارالحکومت پلِ خمری کے قریب بھی جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔

افغانستان کی وزارتِ دفاع نے بھی اتوار کو تصدیق کی ہے کہ آرمی چیف محمد یاسین ضیا دیگر سیکیورٹی حکام کے ہمراہ لغمان صوبے پہنچے ہیں اور وہ طالبان کے خلاف جاری آپریشنز کی قیادت کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ طالبان اور افغان فورسز کے درمیان لڑائی میں شدت ایسے موقع پر سامنے آئی ہے جب امریکہ اور یورپی ملکوں کے عسکری اتحاد (نیٹو) نے یکم مئی سے افغانستان سے انخلا کا عمل جاری ہے۔

یکم مئی کے بعد سے طالبان نے کئی صوبائی دارالحکومتوں پر قبضے کی دھمکیاں دی ہیں اور رپورٹس کے مطابق انہوں اب تک چار اضلاع پر قبضہ بھی کر لیا ہے۔

طالبان کے قبضہ کیے جانے والے اضلاع میں سے دو افغان دارالحکومت کابل سے 70 کلو میٹر کی مسافت پر ہیں۔

افغان فورسز اور طالبان کے درمیان رواں ماہ کے آغاز سے اب تک دونوں جانب سیکڑوں افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ افغان شہریوں کی بھی بڑی تعداد اس لڑائی کی نذر ہو چکی ہے۔

فریقین نے عیدالفطر کے موقع پر تین روزہ جنگ بندی کی تھی جس کے بعد ایک مرتبہ پھر لڑائی کا سلسلہ جاری ہے۔

واضح رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ امریکہ کی تاریخ کی طویل ترین جنگ کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔ ان کے حکم کے مطابق امریکہ کے لگ بھگ 2500 اور نیٹو کے تقریباً سات ہزار اہلکار 11 ستمبر تک افغانستان سے واپس اپنے ملکوں کو روانہ ہو جائیں گے۔

افغانستان سے افواج کے مکمل انخلا کا بائیڈن کا اعلان گزشتہ برس فروری میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت کیا گیا تھا۔

اس معاہدے کے تحت طالبان نے غیر ملکی افواج کو نشانہ نہ بنانے کی ضمانت دی تھی۔ تاہم امریکہ کے مکمل اصرار کے باوجود طالبان کی جانب سے حملوں میں کمی کے مطالبات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

امریکی فوج کے افغان مترجم مستقبل کے بارے میں پریشان​

البتہ امریکہ کے حکام نے ان خدشات کو مسترد کر دیا ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد افغان فورسز طالبان کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی اور طالبان ایک مرتبہ پھر کابل کا کنٹرول سنبھال لیں گے۔

یاد رہے کہ افغان آرمی اور ایئرفورس کا طالبان کے خلاف جنگ میں زیادہ تر انحصار امریکہ کی جنگی فضائی مدد، تربیت اور آلات پر ہے۔

امریکہ کی جانب سے مسلسل سفارتی کوششیں کی جا رہی ہیں کہ کسی طرح فریقین طویل جنگ کے خاتمے کے لیے امن معاہدے پر اتفاق کر لیں۔ تاہم گزشتہ برس ستمبر میں قطر میں شروع ہونے والا بین الافغان مذاکرات کا عمل انتہائی سست روی اور غیر یقینی کیفیت سے دوچار ہے جس کے نتائج اب تک سامنے نہیں آئے ہیں۔

دونوں جانب سے ایک دوسرے پر تاخیر کرنے اور رکاوٹیں حائل کرنے کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں