امریکا کو فوجی اڈے دینا ہمسایہ ممالک کی تاریخی غلطی ہو گی، طالبان کا انتباہ

کابل + اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) طالبان نے افغانستان کے ہمسایہ ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ امریکی فوج کے ملک سے انخلا کے بعد افغانستان میں پھر کسی کارروائی کے لیے اسے فوجی اڈے نہ دیں۔

طالبان کی جانب سے بدھ کو جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ہمسایہ ممالک کی جانب سے امریکہ کے فوجی آپریشنز میں تعاون کرنا ان کی تاریخی غلطی اور رسوائی کا باعث بنے گی۔

طالبان نے خبردار کیا کہ افغانستان کے عوام اس گھناؤنے اور اشتعال انگیز اقدام پر خاموش نہیں رہیں گے اور تمام تر مشکلات کی ذمے داری یہ غلطی کرنے والوں پر عائد ہو گی۔

بیان میں میں کہا گیا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کی خطے میں موجودگی سے یہ علاقہ بے امنی اور انتشار کا شکار ہے۔

طالبان کی جانب سے یہ تنبیہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ امریکہ افغانستان سے انخلا کے بعد اس کے ہمسایہ ممالک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان، ازبکستان اور تاجکستان کے نام بھی سامنے آتے رہے ہیں۔

البتہ، پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے پیر کو پاکستان کی قومی اسمبلی میں واضح کر دیا تھا کہ موجودہ حکومت کسی صورت بھی امریکہ کو فوجی اڈے بنانے کی اجازت نہیں دے گی۔

امریکہ خطے میں موجودگی برقرار رکھنا چاہتا ہے، ماہرین

طالبان کا مزید کہنا ہے کہ گزشتہ برس فروری میں دوحہ میں امریکہ کے ساتھ طے پانے والے امن معاہدے میں اُنہوں نے عالمی برادری کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی اور اسی مناسبت سے ان کی بھی یہی خواہش ہو گی کہ ان کے ملک کے خلاف بھی کوئی سرزمین استعمال نہ ہو۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ خطے میں اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے امریکہ اپنی موجودگی برقرار رکھنا چاہے گا۔

امریکی اخبار ‘دی واشنگٹن پوسٹ’ سے منسلک سینئر صحافی حق نواز خان کا کہنا ہے کہ اگر ماضی کا مشاہدہ کیا جائے تو افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد وہاں شورش میں اضافہ ہوا جس کے باعث نئے شر پسند گروہوں نے جنم لیا۔

اُن کے بقول آخر کار القاعدہ اور دوسری تنظیموں نے کابل میں ڈیرے ڈال لیے اور بعد میں نائن الیون کا واقعہ رونما ہوا۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ موجودہ امریکی قیادت اس غلطی پر اسی بنا پر سوچ بچار کر رہی ہے۔ کیوں کہ مکمل انخلا کی صورت میں اگر افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال زیادہ خراب ہوئی تو امریکہ کے لیے مشینری اور فورسز کی دوبارہ تعیناتی بہت مشکل ہو گی۔

حق نواز خان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ نے دوحہ امن معاہدے سے افغانستان سے نکلنے کی بات ضرور کی تھی لیکن یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ وہ اس پورے خطے سے انخلا کرے گا۔ کیوں کہ امریکہ اس خطے میں چین، ایران، روس اور افغانستان میں جاری سرگرمیوں پر نظر رکھنا چاہتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستان کا امریکہ کے ساتھ 2001 میں طے پانے والے ایئر لائن آف کمیونی کیشن اور گراؤنڈ لائن آف کمیونی کیشن کے معاہدے موجود ہیں اور دونوں ممالک اسی کے تحت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

‘بین الافغان مذاکرات کامیاب نہ ہوئے تو اس کا اثر پاکستان پر بھی پڑے گا’

‘پاکستان کے لیے اب اڈے دینا مشکل فیصلہ ہو گا’
سابق سیکریٹری دفاع لیفٹننٹ جنرل (ر) آصف یاسین ملک کا کہنا ہے کہ گزشتہ 20 برسوں سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے فوجی سازوسامان کی افغانستان متنقلی کے لیے پاکستان کی ہی سر زمین استعمال کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انخلا کے لیے کسی فضائی اڈے کے ضرورت نہیں ہوتی بلکہ زمینی یا سمندری راستے کی ضرورت ہوتی ہے جو پاکستان پہلے ہی فراہم کر رہا ہے۔

اُن کے بقول ایئر ٹریفک کے لیے پاکستان کی فضا استعمال ہو رہی ہے اور یہ سلسلہ 2001 سے مختلف مراحل میں جاری ہے۔

جنرل آصف یاسین ملک کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ اگر امریکہ نے پاکستان سے یہاں اڈے قائم کرنے کا مطالبہ کیا تو اسے پاکستانی عوام کبھی قبول نہیں کریں گے۔

جنرل آصف یاسین کا کہنا تھا کہ سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو افواج کے حملے کے بعد پاکستان نے امریکہ کے زیرِ استعمال شمسی ایئر بیس خالی کرا لیا تھا۔

اُن کے بقول اسی وقت یہ انکشاف ہوا تھا کہ پاکستان میں ایک ایئر بیس امریکہ کے زیرِ استعمال تھی جس پر پاکستان میں عوامی حلقوں کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے جس میں کوئی بھی چیز چھپ نہیں سکتی ہے۔ اگر پاکستانی حکام اپنے عوام سے کوئی ایسا معاہدہ چھپائیں گے تو واشنگٹن سے لیک ہو جائے گا۔ اس لیے پاکستان کوئی بھی ایسا معاہدہ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ہے۔

‘پاکستان خطے کے دیگر ممالک کی ناراضگی مول نہیں لے سکتا’

سابق سیکریٹری دفاع کا کہنا تھا کہ 2001 اور 2021 کے حالات میں بہت زیادہ فرق ہے۔ نو برس بعد روسی وزیرِ خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا اور اب پاکستان روس کے ساتھ اپنے تعلقات بھی بہتر بنا رہا ہے۔

جنرل آصف کے بقول روس نے ازبکستان اور تاجکستان سے بھی کہا ہے کہ وہ امریکہ کو فوجی اڈے نہ دیں۔ لہذٰا اگر پاکستان نے امریکہ کی اس ضمن میں مدد کی تو لامحالہ روس سے اس کے تعلقات خراب ہوں گے۔

اُں کے بقول دوسری جانب چین، پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا منصوبہ ہے جو پاکستان کے لیے نہایت اہم ہے۔ لہذٰا پاکستان چین کی ناراضگی بھی مول نہیں لے سکتا اور اگر امریکہ کے ساتھ فوجی تعاون کیا گیا تو ایران بھی ناراض ہو گا۔

جنرل آصف یاسین ملک کا کہنا تھا کہ افغانستان میں قیامِ امن کے حوالے سے پاکستان کا اہم کردار ہے اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے عمل کو پوری دنیا نے سراہا ہے۔

اُن کے بقول افغانستان میں قیامِ امن کے لیے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ لہذٰا پاکستان کسی بھی صورت امریکہ کو طالبان کے خلاف اپنی سر زمین دوبارہ استعمال کرنے کی اجازت دینے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

اُن کا کہنا تھا کہ یہی وجہ ہے کہ طالبان نے بھی ایسے کسی اقدام کو تباہ کن قرار دیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت اس تمام صورتِ حال سے باخبر ہے اور اسی لیے دفترِ خارجہ نے واضح کیا ہے کہ امریکہ کو اڈے دینے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں