اردن: غزہ میں جنگ بندی کو نئے آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں، امریکی وزیر خارجہ

عمان (ڈیلی اردو/وی او اے) امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے مشرقِ وسطیٰ کا دو روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے۔ دورے کے آخری پڑاؤ میں وہ بدھ کو اردن پہنچے جہاں انہوں نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے کو مستحکم بنانے کے لیے شاہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات کی۔

خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق دو روزہ دورے میں امریکی وزیرِ خارجہ نے اسرائیلی، فلسطینی اور عرب اتحادیوں سے گفتگو کے بعد امن بات چیت کے کسی نئے دور کے امکان کو بعید از قیاس قرار دیا۔

بلنکن نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے جنگ بندی کو مستحکم کرنے اور گیارہ روزہ لڑائی میں غزہ کو پہنچنے والے نقصان کی تلافی کے لئے چند حقیقت پسندانہ اہداف کی طرف کچھ پیش رفت کی ہے۔

بلنکن نے اردن کے دارالحکومت عمان میں شاہ عبد اللہ سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم جنگ بندی کو کسی اختتام کے طور پر نہیں، آغاز کے طور پر دیکھ رہے ہیں، جس پر آگے مزید کام کیا جا سکتا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ پہلی ترجیح تو غزہ کے بیس لاکھ عوام کی فوری ضروریات کو پورا کرنا ہے، اور پھر یہ طے کرنا ہے کہ “حالات اتنے بہتر کئے جائیں کہ ان میں آگے بڑھنے کی کوشش کی جا سکے۔”

اردن کی کل دس لاکھ آبادی کے نصف کا تعلق فلسطینی علاقے سے ہے۔ بلنکن نے اردن پہنچنے سے پہلے قاہرہ کا بھی دورہ کیا، جہاں انہوں نے مصر کے صدر فتح السیسی اور وزیرخارجہ سامح شکری کے ساتھ ملاقات کی۔

مصر نے اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان حالیہ جنگ بندی میں بھرپور کردار ادا کیا ہے۔

اردن اور مصر کے دورے سے ایک دن قبل امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے اسرائیل کی سیکیورٹی اور غزہ کی تعمیر نو کے لیے امریکی تعاون کا اعادہ کیا تھا۔

مسٹر بلنکن نے منگل کو صحافیوں سے گفتگو میں کہا تھا کہ مصر کا جنگ بندی میں بہت کلیدی کردار تھا اور اردن ایک طویل عرصے سے اس خطے میں امن کی آواز کی حیثیت رکھتا ہے۔

بلنکن نے بدھ کے دن کی شروعات اسرائیل کے صدر ربائن رولن کے ساتھ ملاقات کے ساتھ کیں۔ اور مشرق وسطی کے اپنے پہلے دورے کے پہلے پڑاو کو اختتام تک پہنچایا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق امریکی وزیرخارجہ اور اسرائیل کے صدر نے اسرائیلیوں سے تمام شہریوں کے ساتھ مل کر رہنے اور تحمل و برداشت کو فروغ دینے پر تبادلہ خیال کیا۔ دونوں راہنماؤں نے امریکہ اسرائیل شراکت داری اور خطے میں تمام لوگوں کے لیے امن کے فروغ کی ضرورت پر زور دیا۔

پرائس نے یہ بھی بتایا ہے کہ بلنکن نے اسرائیل کے صدر کو آئندہ ہفتوں میں امریکہ کا دورہ کرنے کی بھی دعوت دی۔

منگل کو رملہ میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس کے ساتھ ملاقات کے بعد اینٹنی بلنکن نے کہا تھاکہ وہ امریکی کانگریس سے غزہ میں فلسطینیوں کے لیے 75 ملین ڈالر امداد دینے کا مطالبہ کریں گے۔ امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے گیارہ روزہ حالیہ لڑائی کے بعد جنگ بندی کی تعریف کی تھی اور کہا تھا کہ اس اقدام کو مزید مضبوط بنانے اور غزہ کی تعمیر نو اور غزہ میں چیزوں کو مثبت سمت میں آگے بڑھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

بلنکن نے منگل کے روز دوہرایا کہ بائیڈن انتظامیہ سمجھتی ہے کہ ایک یہودی جمہوری ریاست کے طور پر اسرائیل کے مستقبل کو یقینی بنانے کا واحد راستہ دو ریاستی حل اور فلسطینی ریاست کو اس کا جائز حق فراہم کرنے میں ہے۔

امریکی سفارت کار نے کہا کہ امریکہ یروشلم میں قونصلیٹ دوبارہ کھولے گا، جس کو چار سال پہلے ٹرمپ انتظامیہ نے سال 2019 میں بند کر دیا تھا۔ بلنکن نے غزہ میں انسانی بحران میں مدد کے لیے فوری طور پر پانچ اعشاریہ پانچ ملین ڈالر دینے اور 32 ملین اقوام متحدہ کی ہنگامے امداد کے ادارے کو وہاں کی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔

بلنکن کا کہنا تھا کہ قونصلیٹ کا دوبارہ کھولنا فلسطینی عوام سے رابطے اور ان کی مدد کا اہم راستہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ تعمیر نو کی کوششوں میں حماس کو اس امداد سے کچھ بھی نہ مل سکے۔ امریکہ نے حماس کو، جو غزہ پر کنٹرول رکھنے والا عسکریت پسند گروپ ہے، ایک دہشت گرد گروپ قرار دے رکھا ہے۔

امریکی وزیرخارجہ نے قبل ازیں یروشلم کے دورے میں اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی اہمیت بھی اجاگر کی۔ اسرائیل کے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات میں بلنکن نے کہا کہ اسرائیل اور فلسطینیوں نے حالیہ لڑائی کے دوران بڑے نقصانات کا سامنا کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امید اور اعتماد کی بحالی کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں