سانحہ پکا قلعہ حیدرآباد کو گزرے 31 سال ہوگئے

کراچی (ڈیلی اردو) سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد مییں واقعے تاریخی نوعیت کے علاقے ’’پکا قلعہ‘‘ کے باسیوں کے لیے 26-27 مئی کا دن کسی اذیت ناک داستان سے کم نہیں تھا،جس میں ہلاک ہونے والوں کی آج 31ویں برسی منائی گئی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دور حکومت کے دوران سندھ پولیس میں دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے قائم کی گئی ذیلی فورس ’’ایگل فورس‘‘ نے 26 مئی کو پکا قلعہ کا محاصرہ کیا،اس وقت کے حکومتی ترجمان کا کہنا تھا کہ پکاقلعہ میں ہونے والی کاروائی اسلحہ اور دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع پر کی جا رہی ہے۔

علاقہ مکینوں کے مطابق دو دن سے جاری محاصرے میں پہلے ہی دن پورے علاقے کی بجلی منقطع کردی گئی بعد ازاں پانی اور گیس کی سپلائی بھی بند کر دی گئی، جس کے بعد پکا قلعہ کی رہائشی خواتین بھوک و پیاس سے بلکتے بچوں کے ساتھ سروں پر قرآن رکھے، رحم کی اپیلیں کرتیں، گھروں سے باہر نکل آئیں، جہاں اُن کا سامنا پولیس سپاہیوں سے ہوا،مظاہرین اور پولیس کے درمیان مڈبھیڑ سے تصادم کی صورت اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں 17 خواتین سمیت 20 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

واقعہ کی اطلاع ملنے پر پاک فوج کے جوان مدد کو پہنچے اور ہلاک و زخمی ہونے والے افراد کو ہسپتال پہنچایا،اور علاقہ کا کنٹرول حاصل کر لیا۔

اس سانحہ نے ساسی حلقوں میں ہلچل مچا دی اور اس وقت کے ڈی جی اٗی ایس آئی اسد درانی نے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا،اصغر خان کیس میں اسد درانی کے دیے گئے بیان کے مطابق یہی واقعہ آگے چل کر پیپلز پارٹی کی حکومت کے خاتمے کا باعث بنا۔

جب کہ اس وقت کی حکمراں جماعت نے موقف اختیار کیا کہ دہشت گردوں کی گرفتاری اور غیر قانونی اسلحہ کی برآمدگی کے لیے کیے گئے آپریشن کو سیاسی رنگ دینا افسوسناک ہے۔

جب کہ متحدہ قومی موومنٹ جو اس وقت مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے موسوم تھی کا کہنا تھا کہ آپریشن ان کے کارکنان کی بلاجواز گرفتاریوں کے لیے گیا، ایمک کیو ایم دشمنی میں معصوم خواتین اور بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا،ایم کیو ایم کی پیپلز پارٹی کی کابینہ سے علیحدگی کی سزا ہمارے ووٹرز کی دی گئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں