صحافی حامد میر کو ٹاک شو سے ‘آف ایئر’ کر دیا گیا، کئی حلقوں کی مذمت

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے/بی بی سی/ڈوئچے ویلے) پاکستان کے نجی ٹی وی چینل ‘جیو نیوز’ سے وابستہ صحافی اور اینکر حامد میر کو ہفتے میں پانچ روز نشر ہونے والے پروگرام کیپٹل ٹاک کی میزبانی سے آف ایئر کر دیا گیا ہے۔

حامد میر نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے اُنہیں پروگرام کی میزبانی سے روک دیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کی طرف سے صرف اتنا کہا گیا کہ آپ اپنے شو کی میزبانی نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ “اب تک میں نے خود سے کوئی فیصلہ نہیں کیا کیوں کہ میرے ساتھی صحافی اس معاملے میں میرے ساتھ ہیں اور میں ان کے کہنے کے مطابق آگے کا لائحہ عمل اپناؤں گا۔”

اس بارے میں اب تک ‘جنگ و جیو گروپ’ کی طرف سے کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔

حامد میر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’انتظامیہ نے مجھے کہا کہ میں پریس کلب کے سامنے کی تقریر کی وضاحت یا تردید کروں۔ میں نے ان سے پوچھا یہ آپ سے کون کہہ رہا ہے۔‘

’میں نے ان سے کہا کہ اگر وہ اسد طور پر حملہ کرنے والوں کو گرفتار کر لیتے ہیں تو میں وضاحت چھوڑیں، معافی بھی مانگنے کو تیار ہوں۔‘

ٹوئٹر پر جاری کیے گئے ایک پیغام میں حامد میر نے مزید بتایا کہ یہ سب ان کے لیے نیا نہیں۔ ’مجھ پر دو بار پابندی لگی اور دو بار اپنی نوکری سے ہاتھ دھوئے۔ میں حملوں کے باوجود زندہ ہو لیکن آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانا نہیں چھوڑ سکتا۔ میں اس بار کسی بھی قسم کے نتائج اور کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار ہوں کیونکہ وہ میرے خاندان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ ماضی کے برعکس اس بار ان کی بیوی اور بیٹی کو دھمکیاں ملی ہیں جبکہ ان کے بھائی کو ایف ائی اے نے کسی پرانے کیس میں طلب کیا ہے۔

حامد میر کے خلاف گوجرانوالہ کے ایک اخبار ‘مخلوق’ کے سب ایڈیٹر کی طرف سے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے خلاف بات کرنے پر مقدمے کے اندراج کے لیے بھی درخواست دی گئی ہے۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حامد میر کو آف ایئر کرنے کی مذمت کی ہے۔

البتہ، وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ حامد میر کو آف ایئر کرنے کے لیے حکومت نے کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔

ذرائع کے مطابق ٹاک شو کی میزبانی اب حامد میر کی جگہ اسی گروپ سے منسلک کوئی اور اینکر کریں گے۔

حامد میر نے کیا کہا تھا؟

حامد میر نے جمعے کو صحافی اسد طور پر حملے کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں شرکت کی تھی اور اس موقع پر انہوں نے تقریر کرتے ہوئے بعض ریاستی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

صحافی اسد علی طور نے اپنے اوپر ہونے والے حملے کی ذمے داری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر عائد کی تھی۔ تاہم ہفتے کی شب وزارتِ داخلہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان میں آئی ایس آئی نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ایجنسی کو بدنام کرنے کی کوشش قرار دیا تھا۔

حامد میر کے بقول “صحافی بہت سی باتیں اس وجہ سے نہیں کر پاتے کہ اسٹیبلشمنٹ میڈیا مالکان پر دباؤ ڈالتی ہے جس کی وجہ سے کئی صحافی بے روزگار ہو جاتے ہیں۔”

ویڈیو کے مطابق حامد میر نے کہا کہ “اب اگر آپ ہمارے گھر میں گھس کر ماریں گے تو ہم آپ کے گھر میں تو نہیں گھس سکتے آپ کے پاس ٹینکیں اور بندوقیں ہیں۔ لیکن ہم آپ کے گھر کے اندر کی باتیں آپ کو بتائیں گے اور یہ بھی بتائیں گے کہ کس کی بیوی نے کس کو کیوں گولی ماری اور اس کے یپچھے کون جنرل رانی تھی۔”

حامد میر کی حالیہ تقریر کے بعد سوشل میڈیا پر یہ خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ اس کا ردِ عمل ضرور آئے گا۔ ان کے اس بیان پر گزشتہ تین روز سے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ‘حامد میر’ ٹاپ ٹرینڈ کر رہا ہے اور ان کے حامی و مخالفین اس بارے میں اپنی آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔

البتہ حامد میر پر پابندی سے متعلق صحافی عاصمہ شیرازی کی جانب سے پیر کو کی جانے والی ایک ٹوئٹ پر حامد میر نے کہا کہ ان کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی دو مرتبہ ان پر پابندی لگائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وہ دو مرتبہ ملازمت کھو چکے ہیں اور قاتلانہ حملے میں بھی بچے ہیں لیکن یہ تمام کوششیں انہیں آئینی حقوق کے لیے آواز بلند کرنے سے نہیں روک سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس مرتبہ کسی بھی قسم کے نتائج بھگتنے کو تیار ہیں اور وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔

حامد میر نے کہا کہ ان کے اہلِ خانہ کو ‘وہ’ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس کی وضاحت نہیں کی کہ انہیں کون دھمکیاں دے رہا ہے۔

حامد میر کو آف ائیر کیے جانے کے بارے میں نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل انجم نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ صحافی اس بارے میں پیر کی شام سات بجے ایک اجلاس بلا رہے ہیں۔

ان کے بقول اجلاس کا ایجنڈا پہلے اینکر طلعت حسین سے متعلق وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے بیانات تھے لیکن اب اس میں حامد میر کے بارے میں بھی بات کی جائے گی اور رات آٹھ بجے اگر حامد میر پروگرام میں نہ ہوئے تو اس کے بعد کوئی حتمی لائحہ عمل بنایا جائے گا اور احتجاج کیا جائے گا۔

جنگ گروپ کے ایک سینئر کارکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حامد میر کو فی الحال آف ایئر کیا گیا ہے لیکن وہ بدستور گروپ کا حصہ رہیں گے۔

ان کے بقول پروگرام ‘کیپٹل ٹاک’ کسی اور اینکر کے ذریعے جاری رہے گا اور حالات بہتر ہونے پر حامد میر ہی اس پروگرام کو دوبارہ کریں گے۔

یاد رہے کہ حامد میر پر دوسری بار یہ پابندی عائد کی گئی ہے۔ اس سے قبل سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں ان کے پروگرام پر پابندی عائد کی گئی تھی جس کے بعد صحافی محمد مالک کئی ماہ تک ان کا پروگرام کرتے رہے تھے۔

بعد ازاں حکومت کے ساتھ معاملات بہتر ہونے پر حامد میر دوبارہ یہ پروگرام کرنے لگے تھے۔

حامد میر پر اپریل 2014 میں اس وقت قاتلانہ حملہ ہوا تھا جب وہ کراچی ایئر پورٹ سے اپنے کراچی کے دفتر جا رہے تھے۔ نامعلوم ملزمان نے انہیں چھ گولیاں ماریں جس سے وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔

حامد میر کے بھائی عامر میر نے حملے کا الزام پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے اُس وقت کے سربراہ جنرل ظہیر الاسلام پر عائد کیا تھا۔

جیو نیوز نے بھی یہ الزام بارہا نشر کیا تاہم کچھ عرصے کے بعد اپنی معمول کی ٹرانسمیشن میں اس الزام پر معافی بھی مانگی تھی۔

حامد میر کا پروگرام جب ماضی میں بند کیا گیا تو وہ اسلام آباد کی مختلف سڑکوں پر سیاست دانوں اور صحافیوں کے ساتھ پروگرام کرتے رہے تھے۔

صحافی عاصمہ شیرازی کے مطابق ‘اگر حامد میر کو آج آف ایئر کر دیا جاتا ہے یا ان کے جیو نیوز پر پروگرام پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو طاقتور اسٹیبلشمنٹ اور حکومت پر مزید انگلیاں اٹھیں گی اور ‘ان کے الفاظ کی تائید ہوگی۔’

صحافی منیزے جہانگیر نے ٹوئٹر پر لکھا کہ یہ ‘ان کے لیے تھپر ہے جو پاکستان میں آزاد میڈیا کا دعویٰ کرتے ہیں۔’

‘حامد میر کو صحافیوں کے خلاف حملوں پر بولنے کی سزا دی جا رہی ہے۔’

مہرین ذہرہ ملک کا ایک موقع پر کہنا تھا کہ اب سمجھا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے میڈیا میں ‘جگہ مزید تنگ ہونے جا رہی ہے۔۔۔ بدترین حالات کے لیے تیار ہوجانا چاہیے۔’

انسانی حقوق کی کارکن اور وزیر شیریں مزاری کی صاحبزادی ایمان زینب مزاری نے ٹویٹ میں لکھا کہ ‘جو حامد میر کے ساتھ ہو رہا ہے اس سے ان کی کہی گئی باتیں ثابت ہو رہی ہیں۔ پاکستان کو نقصان پہنچانے پر ان لوگوں کا کبھی احتساب نہیں ہوا۔’

سلیم نامی صارف نے یاد کرایا کہ ‘حامد میر نے شاید سب سے زیادہ انٹرویو عمران خان کے ہی کیے ہیں۔۔۔ ‘دیکھیں حامد’ کے الفاظ ان ہی شوز سے نکلے۔’

مگر نتاشہ نامی صارف کے مطابق حامد میر سے متعلق اطلاعات اب ‘بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں پہنچ رہی ہیں۔ کبھی کبھار مجھے پی ٹی آئی کے لیے بُرا محسوس ہوتا ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے احمق لوگوں کے ساتھ کام کیا ہے۔’

دوسری جانب حامد میر کے ناقدین نے بھی سوشل میڈیا کے ذریعے ان پر تنقید کی۔

مریم نے حامد میر کے پیشہ ورانہ رویے پر سوال اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘دنیا میں کہیں بھی اداروں پر اس طرح تنقید نہیں کی جاتی۔۔۔ آپ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ان کے جذبات سے اتفاق کر سکتے ہیں لیکن ٹی وی اور ڈیجیٹل میڈیا پر ان کا رویہ صحافت کے اخلاقی پیرامیٹر پر پورا نہیں اترتا۔’

اینکر پرسن غریدہ فاروقی کا دعویٰ تھا کہ ‘اطلاعات کے مطابق حامد میر کو آف ایئر کرنے کے لیے کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا، نہ پنڈی نے نہ آئی ایس آئی نے۔ پھر ان پر پابندی کیوں؟ جیو انتظامیہ کو اس اچانک فیصلے کی تفصیلات دینا ہوں گی۔ کیا یہ دباؤ کا نتیجہ ہے؟ کس کا دباؤ؟’

تحریکِ انصاف سے وابستہ سوشل میڈیا کے سرگرم کارکن اور وزیراعلی پنجاب کے مشیر برائے ڈیجیٹل افیئرز اظہر مشوانی نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے کہا کہ: ’اس وقت میر صاحب کی ریٹنگ بہت نیچے ہیں۔ حامد میر پر عارضی پابندی لگا کر ان کی گرتی ہوئی ریٹنگ کو سہارا دیا گیا ہے۔ جیو نیوز کی سوچی سمجھی سازش ہے۔ چند دن کے بعد حامد میر یہی ہوگا اور آزادی کا چیمپئن بن کر جب کیپیٹل پروگرام کرے گا تو ریٹنگ زیادہ ہوگی، فائدہ جیو کو ہی ہوگا۔‘

جیو کو پابندی لگانے کا کوئی حق نہیں

مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق وزیر
اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے اس پابندی کی منطق پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”میں حامد میر کے ٹاک شوز اٹینڈ کرتا رہا ہوں اور انہیں سنتا بھی رہا ہوں میں نے کبھی نہیں سنا کہ انہوں نے کوئی بات ایسی بولی ہو، جو جیو کی پالیسی یا مشن اسٹیٹمنٹ کے خلاف ہو۔ تو پھر ان پر پابندی لگانے کا جواز کیا ہے۔ اگر حامد میر نے جیو سے باہر کسی اور پلیٹ فارم کو استعمال کرتے ہوئے کوئی بات کہی ہے، تو ملک میں آئین اور قانون موجود ہے قانون اپنا راستہ خود لے گا۔ جیو کو پابندی لگانے کی ضرورت نہیں۔”

اسٹیبلشمنٹ کا دباؤ

اسد بٹ کا مزید کہنا تھا کہ حامد میر پر پابندی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کی وجہ سے لگائی گئی ہے۔”حامد میر نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو لوگوں کو پتا نہیں ہے۔ سوشل میڈیا میں اس بات کے پہلے ہی چرچے تھے۔ اگر کوئی بات کی ہے تو وہ کسی ایک فرد واحد کو ٹارگٹ کیا ہے، اس میں پورے ادارے کو ٹارگٹ نہیں کیا گیا۔ لہذا اس پابندی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ جیو نے یہ پابندی اسٹبلشمنٹ کے دباؤ میں لگائی ہے۔”

حامد میر معافی مانگیں

پاکستانی میڈیا میں قومی سلامتی کے اداروں کے دفاع میں بولنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ اس پابندی سے اسٹیبلشمنٹ کا کوئی تعلق نہیں۔ معروف تجزیہ نگار جنرل غلام مصطفی نے ڈبلیو کو بتایا، ”لیکن جو لب و لہجہ حامد میر نے اختیار کیا اور جس طرح کے سنگین الزامات لگائے، وہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہے۔ اس طرح کے الزامات نہ صرف قومی سلامتی کے اداروں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہیں بلکہ ملک کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔ حامد میر سمیت کسی شخص کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی شہرت کو قومی سلامتی کے اداروں پر بے بنیاد الزامات لگانے کے لیے استعمال کرے۔ یہ پابندی بالکل درست ہے اور اگر حامد میر عوامی سطح پر معافی نہ مانگیں، تو ان کے پروگرام کو دوبارہ شروع نہ کیا جائے۔”

تنقید نہیں دشنام طرازی

ان کا مزید کہنا تھا کہ حامد میر کے الزامات تنقید کی زد میں نہیں آتے۔ ”یہ تنقید نہیں بلکہ دشنام طرازی ہے۔ قومی اداروں کو بدنام کرنے کا ایک گھٹیا حربہ ہے۔ کسی بھی شخص کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اس طرح قومی سلامتی کے اداروں کو بد ام کرے اور ان پر دشنام طرازی کرے۔ یہ ہمارے لیے قابل قبول ہے اور نہ ہی قوم اور ملک کے لیے۔”

اسد طور پر حملے کی تحقیقات جاری، آئی ایس آئی کا اظہارِ لاتعلقی

حکومت کا کہنا ہے کہ اسد طور پر ہونے والے مبینہ حملے کی تحقیقات جاری ہیں۔ تاہم قبل ازوقت کسی کو موردِ الزام ٹھیرانا درست نہیں ہے۔

پاکستان کے خفیہ ادارے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) نے بھی وزارت اطلاعات کے توسط سے جاری ایک بیان میں صحافی اسد طور پر ہونے والے مبینہ تشدد سے اظہار لاتعلقی کیا تھا۔

آئی ایس آئی کا مؤقف تھا کہ وہ کیس کی تفتیش میں تعاون کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔

اعلامیے میں مزید کہا گیا تھا کہ اسد طور پر ہونے والے حملے کے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ سازش کے تحت آئی ایس آئی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جب کہ آئی ایس آئی سمجھتی ہے کہ سی سی ٹی وی میں ملزمان کی شکلیں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہیں تو پھر کیس کی تفتیش کو آگے بڑھانا چاہیے۔

دوسری جانب پولیس نے اسد طور کی رہائش گاہ کے اطراف کے سی سی ٹی وی کیمروں کی ریکارڈنگ کی مدد سے اہم شواہد حاصل کیے ہیں۔ اس بارے میں پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن بارہا کوششوں کے باوجود رابطہ نہ ہو سکا۔

اس بارے میں پولیس ذرائع نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اسد طور کے گھر کے قریب موجود کیمروں کی مدد سے پولیس نے اس گاڑی کی معلومات حاصل کر لی ہیں جن میں حملہ آور آئے تھے۔

وزیرِ مملکت برائے اطلاعات و نشریات فرخ حبیب کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے میں پہلے دن سے اسد طور کے ساتھ رابطے میں ہیں۔

پیر کو اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے وائس آف امریکہ کے سوال کے جواب میں فرخ حبیب کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد حکومت نے فوری طور پر پولیس کو اسد طور سے رابطہ کرنے اور ملزمان کی گرفتاری کی ہدایات دی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ملک کے سیکیورٹی اداروں پر الزام لگانا کسی طور مناسب نہیں اس سے ملک دشمن عناصر فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا کہ حکومت صحافیوں کا تحفظ یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہے اور اس ضمن میں جرنلسٹ پروٹیکشن بل بھی اسمبلی میں پیش کیا گیا ہے۔

دوسری جانب وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد نے بھی دعویٰ کیا تھا کہ اس معاملے میں ایک اہم ویڈیو فوٹیج ملی ہے جس کے ذریعے جلد ملزمان تک پہنچ جائیں گے۔ لیکن اب تک اس بارے میں مزید تفصیلات سامنے نہیں آئیں۔

پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں اضافہ
حالیہ عرصے کے دوران پاکستان میں صحافیوں پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ پریس فریڈم انڈیکس نے گزشتہ برس پاکستان کی تین درجہ تنزلی کرتے ہوئے اسے 145 ویں نمبر پر کر دیا تھا۔

فریڈیم نیٹ ورک کے مطابق اسلام آباد اس وقت صحافیوں کے لیے خطرناک ترین شہر بن چکا ہے۔

وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری نے جمعے کی شام برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے پروگرام ‘ہارڈ ٹاک’ کو ایک انٹرویو کے دوران صحافیوں پر حملوں کے حوالے سے کہا تھا کہ مغربی میڈیا میں ہر بات کا الزام ‘آئی ایس آئی’ پر عائد کر دینا فیشن بن چکا ہے۔

ان کا دعویٰ تھا کہ صحافیوں پر زیادہ تر حملوں کی وجہ امیگریشن وجوہات ہیں۔ ان کے بقول صحافی ان حملوں کو جواز بنا کر بیرونِ ملک اچھے مستقبل کے لیے جانا چاہتے ہیں۔

دوسری جانب صحافتی تنظیموں نے فواد چوہدری کے اس بیان کی مذمت کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں