پشاور میں لاپتہ افراد کے لواحقین کا احتجاج اور دھرنا

پشاور (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں صوبے کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے لاپتا رشتے داروں کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔ محمد زرین گزشتہ دس برسوں سے اپنے بیٹے کی تلاش میں ہیں۔

صوبائی اسمبلی کے سامنے احتجاجی کیمپ میں شامل مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ انہیں اپنے رشتہ داروں کے زندہ یا مردہ ہونے کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔ احتجاج میں شامل زیادہ تر افراد کا تعلق سابقہ قبائلی اور نیم قبائلی علاقوں سے ہے۔

لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے لگائے گئے اس کیمپ میں موجود عمر رسیدہ محمد زرین کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”میرا بیٹا اچانک لاپتہ ہوا اور اب اسے لاپتہ ہوئے دس سال بیت گئے ہیں۔ جب وہ لاپتہ ہوا تھا تو میں نے سوچا کہ وہ کوئی غلط کام نہیں کر سکتا، جلد ہی واپس آ جائے گا لیکن آج تک ہمیں اس کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلا۔ اس کے بچے، بیوی اور والدہ آج تک انتظار میں ہیں۔‘‘

مظاہرین نے حکومتی نمائندوں سے بات چیت کے لیے ایک باقاعدہ کیمٹی بنا رکھی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ میر افضل کا کہنا تھا، ”حکومت سے مطالبہ ہے کہ اگر یہ لوگ زندہ ہیں تو ان کو آئین و قانون کی روشنی میں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جائے اور ہمیں بتایا جائے کہ یہ لوگ اس وقت کہاں ہیں؟ کم ازکم ان کی رشتہ داروں سے ملاقات کروائی جائے ۔‘‘

عوامی نیشنل پارٹی کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک کا کہنا تھا،”دہشت گردی اور بدامنی کی لہر، جو ایک زمانے سے ہے، اس میں لوگ ماورائے قانون لاپتا ہوئے ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ کسی کی نعش ملتی ہے تو کوئی ایک عرصے تک لاپتہ رہتا ہے۔ ‘‘

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ”اگر کوئی ریاست مخالف سرگرمیوں یا جرائم میں ملوث ہو تو اسے آئین اور قانون کے دائرے میں لایا جائے۔ عدالتوں کے ذریعے ان پر مقدمات چلائے جائیں۔ ماوراے عدالت اقدامات بدامنی اور دہشت گردی میں اضافے کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس طرح لوگوں میں احساس محرومی بڑھتا ہے۔ ‘‘

لاپتا افراد کے حوالے سے پشاور ہائی کورٹ کے معروف قانون دان نور عالم خان کا کہنا ہے، ”ان لوگوں کے لیے باقاعدہ ایک کمیشن موجودہ ہے، جو لاپتا افراد کے بارے میں تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہے۔ ہمسایہ ملک افغانستان اور صوبہ بلوچستان میں مسائل ہیں، جن کی وجہ سے پاکستان کو عالمی سطح پر بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ بعض قوتوں کی طرف سے کچھ لوگوں کو پاکستان کے خلاف اُکسانے کے خدشات بھی موجود ہیں۔ اس لئے ایسے کیسز میں انتہائی احتیاط کی ضرورت وقت اور حالات کا تقاضا ہے۔‘‘

حکومت نے لاپتہ افراد کے مسئلے کو کو حل کرنے کے لیے ایک کمیشن قائم کر رکھا ہے۔ کمیشن پہلے مرحلے میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ متاثرہ شخص کہاں پر ہے، پھر ان کے رشتہ داروں سے بھی معلومات جمع کی جاتی ہیں کہ متاثرہ شخص کب اور کس علاقے سے لاپتا ہوا؟

اس کمیشن کو پختون‍خوا اور نئے ضم شدہ قبائلی اضلاع سے لاپتہ ہونے والے ڈھائی ہزار افراد کی گمشدگی کی درخواستیں دی جا چکی ہیں۔

احتجاجی کیمپ میں شامل مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان کی آواز نہ سنی گئی تو اگلے مرحلے میں وہ دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا دیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں