بھارت میں مسلمان شخص کی زبردستی داڑھی کاٹنے اور تشدد کی ویڈیو وائرل، 3 افراد گرفتار

نئی دہلی (ڈیلی اردو/بی بی سی) انڈین ریاست اترپردیش کے علاقے غازی آباد میں ایک معمر مسلمان شخص کے ساتھ تشدد کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں ملزمان نے ان کی داڑھی کاٹی اور ان سے زبردستی ‘جے شری رام’ کے نعرے لگوائے گئے۔

سوشل میڈیا پر اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد پولیس نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے جس کے مطابق متاثرہ شخص کی جانب سے تحریری بیان پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے اور اب تک تین افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

انڈیا اور پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر اس واقعے پر شدید رنج و غم کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ کوئی اسے مسلمانوں کے خلاف جاری واقعات کی کڑی کے طور پر بیان کر رہا ہے تو کوئی اسے اترپردیش میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے سیاسی و مذہبی تفریق پیدا کرنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہا ہے۔

دہلی سے ملحقہ تھانہ لونی بارڈر کے سی ای او نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ‘مذکورہ وائرل ویڈیو کے سلسلے میں متاثرہ شخص کی شکایت پر پہلے ہی مقدمہ درج کیا جا چکا ہے۔ مرکزی ملزم فی الحال جیل میں نظربند ہے اور دوسرے ملزمان کو گرفتار کر کے کیس میں مزید کارروائی کی جائے گی۔’

https://twitter.com/zoo_bear/status/1404333656542306306?s=19

ویڈیوز میں کیا ہے؟

انڈیا میں فیکٹ چیک نیوز کی ویب سائٹ ’آلٹ نیوز‘ کے شریک بانی محمد زبیر نے ٹویٹ کرتے ہوئے متاثرہ معمر شخص کا نام عبدالصمد سیفی بتایا ہے اور ان کی دونوں ویڈیوز شیئر کی ہیں۔

ایک ویڈیو میں چند نوجوان تھپڑوں اور ڈنڈوں سے اس شخص پر تشدد کر رہے ہیں جو ان کے آگے ہاتھ جوڑتے نظر آتے ہیں جبکہ دوسری ویڈیو میں وہ کٹی ہوئی داڑھی میں اپنی روداد بیان کر رہے ہیں۔

ویڈیو میں عبدالصمد بتاتے ہیں کہ وہ رکشا میں لونی بارڈر سے بیہٹا (جگہ کا نام) جا رہے تھے، آگے چل کر اس میں دو اور نوجوان سوار ہو گئے۔ انھوں نے ان کے ہی رومال سے ان کا منھ ڈھک دیا اور انھیں دور جنگل میں لیجا کر ایک کمرے میں بند کر دیا جہاں انھیں بہت مارا پیٹا گیا۔

ان کے مطابق ’ملزمان نے ان سے زبردستی ‘جے شری رام’ کے نعرے لگوائے اور جب وہ اللہ اللہ کہتے تو ملزمان نے پستول ان کی کنپٹی پر رکھ کر کہا کہ ’آج تجھے نہیں چھوڑیں گے۔‘

عبدالصمد کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ان سے کہا کہ ’ہم پہلے بھی بہت مسلمانوں کو مار چکے ہیں اور آج تجھے بھی زندہ نہیں چھوڑیں گے۔‘

عبدالصمد کے مطابق تین بجے سے شام سات بجے تک وہ ان پر تشدد کرتے رہے۔

ویڈیو میں وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ ’جب میں اللہ اللہ کرتا تو وہ کہتے تو منتر پڑھ رہا ہے اور زبردستی مجھ سے ’جے شری رام‘ اور ’رام رام‘ کے نعرے لگواتے۔‘

عبدالصمد مزید بتاتے ہیں کہ ملزمان انھیں دکھاتے رہے کہ ’ہم مسلمانوں کے ساتھ ایسا کریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ وہ پانچ آدمی تھے جنھوں نے ’میری اتنی لمبی داڑھی تھی جو ساری کینچی لا کر کاٹ دی اور مجھے بہت مارا‘ یہ کہتے ہوئے وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتے ہیں۔

محمد زبیر نے غازی آباد پولیس اور اترپردیش پولیس کو ٹیگ کرتے ہوئے وہ ویڈیو شیئر کیں اور لکھا: ‘ایک معمر شخص عبدالصمد سیفی پر غازی آباد کے لونی میں پانچ غنڈوں نے حملہ کیا۔ انھیں بندوق کی نال پر ڈرایا دھمکایا، پیٹا اور زبردستی ان کی داڑھی کاٹ دی۔’

’عبدالصمد کافی خوفزدہ تھے اور مقدمہ درج کرنے سے گریز کرنا چاہتے تھے‘

بی بی سی کی جانب سے متاثرہ شخص سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا کیوں کہ ان کا فون یا تو واردات کے دوران گم ہو گیا تھا یا ملزمان نے چھین لیا تھا۔ ان کے بیٹے کا فون بھی بند ہے۔

حملے کے بعد وہ غازی آباد میں اپنے دوست کے رشتے دار محمد آصف کے گھر گئے تھے جہاں انھوں نے اس واردات کے بارے میں لوگوں کو بتایا۔

بی بی سی کے نامہ نگار نیاز فاروقی سے بات کرتے ہوئے محمد آصف کا کہنا تھا کہ وہ کافی خوفزدہ تھے اور مقدمہ درج کرنے سے گریز کرنا چاہتے تھے ’ان کا کہنا تھا کہ میں ان سب چیزوں میں نہیں پڑنا چاہتے۔‘

آصف کے ایک پڑوسی بھی اس وقت وہاں موجود تھے جب عبدالصمد ان کے گھر پہنچے، انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ رو رہے تھے اور کافی تکلیف میں تھے۔

پڑوسی نے بتایا کہ ’وہاں آس پاس کے زمیندار جمع ہو گئے اور فیصلہ کیا کہ اس واقعے سے متعلق کیا مناسب قدم اٹھانا چاہیے۔ سب نے اپنی تجاویز پیش کیں۔ کچھ لوگوں نے ان کی ویڈیو کو سوشل میڈیا پر ڈالنے کا مشورہ دیا۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’واقعے کی تفتیش کا کام پولیس کا ہے، وہ بہتر جانتے ہیں انھیں کیا کرنا ہے۔ جہاں واقعہ ہوا، ہم وہاں موجود نہیں تھے۔ لیکن جیسا متاثرہ شخص نے بیان کیا، ویسی ہی تفصیلات ہم نے سب سے سنی ہیں۔‘

امید پہلوان ادریسی نامی ایک مقامی رہنما نے 7 جون کو مقدمہ درج کرنے میں متاثرہ شخص کی مدد کی اور اپنے فیس بک اکاؤنٹ سے ‘لائیو’ جا کر انھی کی زبانی ان کی حالت زار سنوائی۔’

جب بی بی سے نے ادریسی سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے کہا کہ وہ کچھ منٹ بعد بات کریں گے لیکن اس کے بعد فون کالز کا جواب نہیں دیا۔

سوشل میڈیا پر ردِعمل

اس واقعے کی ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔

انڈیا کی معروف صحافی رعنا ایوب نے اس ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ‘میں نے بہت سی ویڈیوز دیکھی ہیں جن سے مجھے پریشانی ہوئی ہے۔ لیکن اس ویڈیو نے میری سانسیں روک دیں۔ ایک مسلم شخص کو ایک بھیڑ پیٹ رہی ہے اور زبردستی جے شری رام کے نعرے لگوا رہی ہے۔‘

وہ پوچھتی ہیں ’کیا مجھے اپنے غصے کے اظہار کی اجازت ہے، اپنے رشتہ داروں کے لیے پریشان ہونے کی اجازت ہے ایک ایسے ملک میں جسے ہم اپنا کہتے ہیں وہاں ایک مسلم ہونے کے ناطے ہمیں شرمندہ محسوس کرنے کی اجازت ہے؟’

دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اور بہار میں حزب اختلاف کی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کی جانب سے رکن پارلیمان منوج کمار جھا نے رعنا ایوب کے ٹویٹ کے جواب میں لکھا: ‘لاکھوں لوگ ان سے معافی مانگنا چاہیں گے۔ یہ ہمیں بھی اتنی ہی تکلیف دے رہا ہے۔ یہ وہ نہیں جس کے بارے میں ہم نے ‘مقدر آزمائی’ کے سفر کے آغاز میں سوچا تھا۔’

خیال رہے کہ انڈیا کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے 15 اگست سنہ 1947 کی رات انڈیا کی آزادی کا اعلان کرتے ہوئے اسے ‘ٹرائسٹ ود ڈسٹینی’ یعنی مقدر آزمائی سے تعبیر کیا تھا۔

کانگریس پارٹی کی ایک ترجمان ڈاکٹر شمع محمد نے ٹویٹ کیا کہ ‘غازی آباد میں ایک بوڑھے مسلم شخص پر حملہ ہوا اور اسے جے شری رام کہنے کے لیے کہا گيا۔ انھوں (عبدالصمد) نے کہا کہ انھوں نے مجھے اتنا مارا کہ میں درد برداشت نہیں کر سکا۔ وہ قینچی لے کر آئے اور میری داڑھی کاٹ دی۔’

انھوں نے لکھا کہ ’بی جے پی آنے والے انتخابات کے لیے ‘تقسیم کرو اور راج کرو’ پر واپس آ گئی ہے۔’

بیرسٹر اور مصنف سوچترا وجیین نے ٹویٹ کیا: ‘میں اس بوڑھے شخص کی ویڈیو شیئر نہیں کر رہی ہوں جو آن لائن وائرل ہیں۔ ان کا نام عبدالصمد ہے، انھیں مقامی لوگوں نے اغوا کیا، ویرانے میں لے گئے اور زبردستی جے شری رام اور وندے ماترم کا نعرہ لگوایا گیا۔ یہ اکثریتی ہندو دہشت ہے۔’

کالم نگار انکت جین کے ٹوئٹر پر سوا لاکھ فالوورز ہیں وہ اپنے آپ کو بی جے پی کا حامی بتاتے ہیں۔ انھوں نے اس کے بعد ٹویٹ کیا: ‘عارف، عادل، مشاہد نے ان کی داڑھی کاٹی اور عبدل (عبدالصمد) کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ ایسا رام راج تو گاندھی نے بھی نہیں سوچا ہوگا۔’

صحافی ایشوریہ اییر نے لکھا: ‘چاچا کہاں جاؤ گے، آؤ بیٹھو میں چھوڑ دوں گا آپ کو۔ یہ بظاہر وہ ہمدردانہ الفاظ تھے جو آٹو ڈرائیور نے 72 سالہ عبدالصمد سیفی سے کہے اور پھر چار پانچ لوگوں نے ان کی داڑھی کاٹ دی۔’

https://twitter.com/indiantweeter/status/1404667412704686081?s=19

پولیس کے تازہ بیان میں کیا کہا گیا ہے؟

پولیس نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ اس نے دو مزید افراد کو گرفتار کیا ہے جن میں کلّو اور عادل شامل ہیں۔ پولیس کے مطابق مبینہ ھور پر ’عبدالصمد تعویذ دینے کا کام کرتے تھے اور ان کی تعویذ الٹی پڑ گئی جس کی وجہ سے انھیں پیٹا گیا‘۔ پولیس کے مطابق اس میں شامل دوسرے لڑکوں میں مشاہد، عارف اور پولی شامل ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ دیگر ملزمان کی شناخت ہوچکی ہے اور جلد ہی انھیں بھی گرفتار کرلیا جائے گا۔ اس بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘عبد الصمد بلند شہر سے لونی سرحد پر آئے تھے جہاں سے وہ ایک اور شخص کے ساتھ مرکزی ملزم پرویش گوجر کے گھر گئے۔’

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ گوجر کو ان کے گھر پر کلّو، پولی، عارف، عادل اور مشاہد ملے اور ان سب نے اس بوڑھے شخص کے ساتھ تشدد کیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ‘ان کے بقول عبد الصمد تعویز بنانے کا کام کرتے ہیں، اس کے دیے ہوئے تعویز سے ان کے خاندان پر الٹا اثر ہوا۔ اس وجہ سے انھوں نے یہ فعل انجام دیا’۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ملزمان عبد الصمد کو پہلے سے جانتے تھے کیوں کہ انھوں نے ‘گاؤں میں کئی لوگوں کو تعویز دیے تھے۔’

واضح رہے کہ اس سے قبل بھی مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے واقعات پیش آتے رہے ہیں اور اترپردیش پولیس تحقیات کے معاملے میں شدید تنقید کا شکار رہی ہے۔

اس سے قبل گذشتہ ماہ اتر پردیش کے بلند شہر کے ایک قصاب عقیل قریشی کی موت کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے بارے میں اہل خانہ کا کہنا تھا کہ انھیں پولیس نے مارا ہے جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ وہ ان کے جانے کے بعد اپنے گھر کی چھت سے کود کر ہلاک ہوئے۔

یہ واقعہ بھی سوشل میڈیا پر شدید بحث و تنقید کا باعث بنا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں