کراچی: کمسن شاگرد کے اغوا اور قتل میں ملوث ’دو قاریوں‘ کو 2، 2 بار سزائے موت کا حکم

کراچی (ڈیلی اردو) انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2016 میں تاوان کی غرض سے اغوا کیے گئے ایک 15 سالہ لڑکے کے قتل کے الزام میں بچوں کو قرآن پڑھانے والے دو قاریوں کو دو، دو بار سزائے موت کا حکم دیا ہے۔

قاری احسن علی اور قاری عبد المجید پر جون 2016 میں عبدالمعیز کو تاوان کے بدلے اغوا اور قتل کرنے کے بعد اس کے جسم کے اعضا بریگیڈ پولیس اسٹیشن کے مختلف علاقوں میں پھینکنے کا الزام تھا۔

پیر کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت نمبر 20 کے جج نے سینٹرل جیل کے اندر جوڈیشل کمپلیکس میں مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جسے فریقین کے شواہد اور حتمی دلائل ریکارڈ کرنے کے بعد محفوظ کیا گیا تھا۔

جج نے نوٹ کیا کہ استغاثہ نے ملزموں کے خلاف الزامات کو کسی بھی شبہے سے بالاتر ثابت کردیا کیونکہ استغاثہ کے گواہوں کی گواہی اعتماد سے بھرپور ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ایک بے قصور کی زندگی لیتے ہوئے ملزمان نے جس انداز سے سلوک کیا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ کسی بھی قسم کی نرمی کے مستحق نہیں ہیں۔

انہیں اغوا برائے تاوان، قتل اور دہشت گردی کے جرم میں سزائے موت سنائی گئی۔

جج نے ہر مجرم کو دس، دس لاکھ روپے جرمانے کی ادائیگی یا پھر 10 سال قید کی سزا بھگتنا ہو گی۔

دونوں سزائیں بیک وقت دی جائیں گی، البتہ ان سزاؤں کا انحصار سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے تصدیق پر ہے، دونوں مجرموں کو سزا سنانے کے بعد جیل بھیج دیا گیا۔

خصوصی سرکاری وکیل اقبال میو نے استدلال کیا کہ 15سالہ مقتول معیز 26 جون 2016 کو خداداد کالونی کی غوثیہ قادریہ مسجد میں اعتکاف میں بیٹھنے کے لیے ایک فارم لایا تھا۔

پراسیکیوٹر نے مزید بتایا کہ یہ نوعمر لڑکا حافظ قرآن تھا، فارم بھرنے کے بعد وہ مسجد میں جمع کرانے گیا تھا لیکن پھر کبھی واپس نہیں آیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ شکایت کنندہ محمد عارف کو اپنے بیٹے کے سیل فون سے ایک ایس ایم ایس میسج موصول ہوا اور نامعلوم شخص نے لڑکے کی باحفاظت رہائی کے لیے 7لاکھ روپے تاوان طلب کیا۔

پراسیکیوٹر نے بتایا کہ لڑکے کے اہل خانہ نے اغوا کاروں کو 4لاکھ روپے تاوان ادا کیا جنہوں نے ایک گھنٹے کے بعد لڑکے کو آزاد کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن وہ بھی گھر نہیں لوٹا۔

استغاثہ نے بتایا کہ دونوں ملزمان عبد المعیز کو قرآن کی تعلیم دیتے تھے اور شناخت کے خوف سے انہوں نے لڑکے کو ذبح کر دیا اور اس کے اعضا کے ٹکڑے کر کے مختلف علاقوں میں دفن کردیا۔

پراسیکیوٹر کا مؤقف تھا کہ پولیس نے قاری احسن علی کو گرفتار کیا اور وہ قاری عبد المجید کی گرفتاری کا سبب بنے، دونوں نے پولیس کو مقتول کے جسمانی اعضا کے ساتھ جرم میں استعمال کی گئی چھری اور خنجر بازیافت کرانے میں مدد کی۔

اقبال میو نے استدعا کی کہ شواہد استغاثہ کے الزامات اور ملزمان کے کردار کی پوری طرح سے تصدیق کرتے ہیں لہٰذا عدالت ملزمان کو قانون کے مطابق سزا سنائے۔

دوسری جانب ملزموں نے فوجداری ضابطہ اخلاق کی دفعہ 342 کے تحت صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے الزامات کی تردید کی، ملزمان نے بے گناہی کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت سے استدعا کی کہ انہیں بری کیا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں