کالعدم تحریک طالبان پاکستان شوریٰ کا اجلاس: پانچ شیڈو گورنر کی تقرر

اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) کالعدم تحریک طالبان پاکستان میں ناراض گروپس کی دوبارہ شمولیت کے بعد تنظیم سازی کے عمل کو تیز کیا گیا ہے، اس سلسلے میں تازہ اور اہم تقرریوں کی اطلاعات موصول ہوئیں ہے۔

ذرائع سے ملنے والی خبروں کے مطابق کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی مرکزی شوریٰ کے کئی اجلاس تنظیم سازی کے ایجنڈے کے تحت ہونے اور مشاورت کی تکمیل کے بعد چند اہم تقرریاں کی گئی جس کی تنظیم کے امیر و سربراہ مفتی نور ولی محسود نے باقاعدہ منظوری بھی دے دی ہے۔

ان اہم تقرریوں میں ایک اہم عمر خراسانی کا پشاور ڈویژن کے لیے گورنر مقرر ہونا ہے، اطلاعات کے مطابق کمانڈر عمر خالد خراسانی کے قریبی ساتھی اور حزب الاحرار نامی کالعدم تنظیم کے سربراہ عمر خراسانی کو پشاور ڈویژن کے لیے والی (گورنر) مقرر کیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ حال ہی میں افغانستان کے بگرام جیل سے رہائی پانے والے امیر مولوی فقیر محمد کے قریبی ساتھی شاہد عمر کو باجوڑ کے لیے گورنر مقرر کیا گیا ہے۔

دیگر تقرریوں میں سوات سے تعلق رکھنے والے مفتی برجان کو ملاکنڈ ڈویژن، شمالی وزیرستان کے کمانڈر استاد علیم خان کو بنوں ڈویژن جبکہ جنوبی وزیرستان کے ابو یاسر کو ڈیرہ اسماعیل خان ڈویژن کے لیے گورنر مقرر کیا گیا ہے۔

ملنے والی اطلاعات کے مطابق گورنرز کے ساتھ دیگر انتظامی تقرریاں بھی کی گئی ہے۔ جس میں فلاحی، عسکری اور انٹیلیجنس شعبوں کے مسئولین شامل ہیں۔

تنظیم سازی کے موجودہ عمل سے پتہ چلتا ہے کہ ٹی ٹی پی منظم ہونے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے وہ اپنا تنظیمی ڈھانچہ افغان طالبان کے طرز پر (پاکستان) منتقل کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ ٹی ٹی پی میں دوبارہ شمولیت سے پہلے کمانڈر عمر خالد خراسانی نے افغان طالبان طرز کی تنظیم سازی کی شرط رکھی تھی جنہیں ٹی ٹی پی قیادت نے تسلیم کر لیا تھا، حالیہ پیش رفت اسی مطالبے پر عمل درامد کی ابتداء معلوم ہو رہی ہے، 2014 میں ٹی ٹی پی سے اختلاف اور نئی تنظیم (جماعت الاحرار) بنانے کی کئی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ تنظیمی ڈھانچے پر اختلافات بھی تھے، جس کی بنا پر جماعت الاحرار کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ان نئی تقرریوں سے نہ صرف ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں تیزی آئیگی بلکہ اس کا تنظیم کے اندر جنگجووں پر بھی مثبت آثر پڑے گا۔

سیکورٹی تجزیہ کاروں کے مطابق دہشتگرد گروہوں کا اتحاد نو پاکستان کی اینٹی ٹیررزم کارروائیوں کے لیے بہت بڑاجھٹکا ہے۔ دہشتگردی کو کمزور کیا جا سکتا ہے، اسکو ناکام کیا جاسکتا ہے اور اسکے منفی اثرات کو محدود کیا جاسکتا ہے مگر اسکو شکست نہیں دی جاسکتی۔

ایک صحافی کا کہنا ہے کہ یہ اتحاد نو ناکارہ اور مایوس جنگجووں کو دوبارہ ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دے گا اور یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں