ایران میں سخت گیر ابراہیم رئیسی صدر منتخب

تہران (ڈیلی اردو/روئٹرز/اے پی/اے ایف پی) ایرانی صدارتی انتخابات میں سابق جج اور سخت گیر نظریات کے حامل ابراہیم رئیسی فتح یاب رہے ہیں۔ ان کے حریف اور اعتدال پسند صدارتی امیدوار عبدالناصر ہمتی نے شکست تسلیم کرتے ہوئے رئیسی کو فتح کی مبارک باد دی ہے۔

جمعہ 18 جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں حکام کے مطابق 59 ملین اہل ووٹروں میں سے 28 ملین سے زائد نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے ایرانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ سابق جج ابراہیم رئیسی کو ان میں سے 17.8 ملین ووٹ ملے۔

60 سالہ شیعہ رہنما ابراہیم رئیسی پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے تحت امریکا نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ ایرانی صدراتی انتخابات کے ابتدائی نتائج اور عبدالناصر ہمتی کی طرف سے ابراہیم رئیسی کو مبارکباد دیے جانے سے قبل امریکی وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے کہا، ”ایرانیوں کو ایک آزاد اور منصفانہ انتخابی عمل کے تحت اپنے رہنما چننے کے حق سے محروم کیا گیا۔‘‘

واحد اعتدال پسند امیدوار کی طرف سے رئیسی کو مبارکباد

ایرانی صدارتی انتخابات میں اعتدال پسند سمجھے جانے والے واحد امیدوار عبدالناصر ہمتی نے ابراہیم رئیسی کو ان کی جیت پر مبارکباد دی ہے۔ ایران کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ عبدالناصر ہمتی نے ابراہیم رئیسی کو مبارکباد پر مبنی ایک خط تحریر کیا: ”مجھے امید ہے کہ سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ کی رہنمائی میں آپ کی انتظامیہ اسلامی جمہوریہ کو قابل فخر بنائے گی، ذریعہ معاش، عوام کے حالات اور فلاح و بہبود میں بہتری کو یقینی بنائے گی۔‘‘

اس سے قبل اپنی مدت صدارت مکمل کرنے والے حسن روحانی ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے اپنے خطاب لوگوں کی طرف سے منتخب ہونے والے صدر کو مبارکباد دی تاہم انہوں نے رئیسی کا نام نہیں لیا۔ روحانی کے بقول: ”چونکہ ابھی تک سرکاری طور پر اس کا اعلان نہیں کیا گیا اسی لیے میں سرکاری طور پر مبارکباد ابھی نہیں دے رہا ہوں۔‘‘

امیدواروں کا انتخاب محدود

صدراتی انتخابات کو قانونی حیثیت دینے کے لیے ایران کے مذہبی رہنماؤں کی طرف سے عوام سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ جمعے کو ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے ضرور نکلیں۔ تاہم ایران کے اندر اور باہر موجود مخالفین کا کہنا ہے ایران میں معاشی مشکلات اور شخصی آزادی پر قدغنوں کے سبب عوام میں غم و غصہ موجود ہے، اسی لیے ووٹ ڈالنے کی شرح کافی کم رہی۔

ملک میں اصلاحات کے حامی ووٹروں کے لیے اس الیکشن میں انتخابات انتہائی محدود تھا کیونکہ سخت گیر انتخابی کونسل نے اہم اعتدال پسند اور کنزرویٹیو امیدواروں کو انتخابات میں شمولیت سے محروم کر دیا تھا۔ تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ گارڈین کونسل کی طرف سے انتخابی دوڑ سے ایسے امیدواروں کو نکال باہر کرنے کا مقصد ہی رئیسی کی فتح کا راستہ ہموار کرنا تھا۔

اسٹیبلیشمنٹ کے پسندیدہ: ابراہیم رئیسی

چند سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ابراہیم رئیسی کے لیے منصب صدارت تک جانے کا راستہ صاف کیا گیا ہے۔

رئیسی ایرانی عدلیہ کے سربراہ ہیں اور سخت گیر نظریات کے حامی ہیں۔ اس کے بارے میں غالب قیاس کیا جا رہا ہے کہ وہ نہ صرف موجودہ ایرانی صدر حسن روحانی بلکہ ممکنہ طور پر ایران کے رہبر اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے متوقع جانشین ہو سکتے ہیں۔

اُن کے ساتھ اس صدارتی انتخاب کی دوڑ میں کوئی دوسرا ایسا امیدوار نہیں جس کا اتنا اثر و رسوخ اور ایرانی معاشرے میں عزت ہو۔

انھوں نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز ملک میں معاشی مشکلات کے باعث پیدا ہونے والی ’مایوسی اور ناامیدی‘ سے نمٹنے کے وعدوں کے ساتھ کیا۔

ابراہیم رئیسی کو ایران کے قدامت پسند حلقوں میں وسیع حمایت حاصل ہے اور توقع ہے کہ دوسرے بڑے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی نامنظور ہونے کے بعد ان کی منصب صدارت تک پہنچنے کی راہ ہموار ہو گئی ہے۔

ایران میں سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد ابراہیم رئیسی نے عدلیہ کے شعبے کا انتخاب کیا تھا اور اپنے کریئر کے دوران وہ زیادہ تر وقت پراسیکیوٹر کے عہدے پر تعینات رہے تاہم اس دوران ان کے حوالے سے متعدد تنازعات بھی کھڑے ہوتے رہے۔

انھوں نے سنہ 1988 میں تہران کے اسلامی انقلاب کی عدالت کے ڈپٹی پراسیکیوٹر کے فرائض سرانجام دیے اور وہ سیاسی قیدیوں کو بڑے پیمانے پر پھانسی دینے والے ایک خصوصی کمیشن کا حصہ تھے۔

وہ مشہد میں شیعوں کے آٹھویں امام، امام رضاؑ کے روضے آستانۂ قدسِ رضاوی کے نگران بھی رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ماہرین کی اس طاقتور اسمبلی کے بھی رکن ہیں جو سپریم لیڈر کی تقرری اور انھیں ہٹانے کی ذمہ دار ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں