اسلام آباد: اسلامی یونیورسٹی میں قائداعظم یونیورسٹی کے طالبعلم کا گینگ ریپ

اسلام آباد (ڈیلی اردو) پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی بین الاقوامی اسلامک یونیورسٹی میں قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم کے ساتھ اجتماعی زیادتی کا انکشاف ہوا ہے۔

ذرائع کے مطابق دو روز قبل اسلام آباد کی اسلامک یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پذید قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم کو بدفعلی کا نشانہ بنایا گیا۔ متاثرہ طالب علم نے جب خود کو بچانے کی کوشش کی تو یونیورسٹی کے ہاسٹل میں موجود چند طلباء کو واقعہ کا علم ہوا اور بات انتظامیہ کے علم بھی آگئی۔

اسلامک یونیورسٹی کی انتظامیہ دو روز تک اس واقعہ کو چھپانے کی کوشش کرتی رہی تاہم معاملہ کھل گیا۔ متاثرہ طالب علم کو مطمئن کرنے کے لئے 18 جون کو خفیہ طور پر اسٹوڈنٹس ڈسپلن کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا اور اسلامی یونیوسٹی کے دو طلبا محمد ابراہیم خان اور محمود اشرف کو یونیورسٹی سے خارج کر دیا گیا۔

اسلامک یونیورسٹی کے ترجمان ناصر فرید نے واقعے کی تصدیق کی اور کہا کہ اس واقعہ میں ملوث طلبا ہاسٹل میں غیر قانونی طور پر مقیم تھے، انتظامیہ فوری طور پر متاثرہ لڑکے کو اسپتال لے کر گئی اور ون فائیو پر اطلاع دی گئی تاہم متاثرہ لڑکے نے کسی کارروائی سے انکار کر دیا ،اس کے باوجود یونیورسٹی نے ملوث طلبا کو یونیورسٹی سے نکال دیا ہے اور ہاسٹل وارڈن کو بھی عہدے سے برطرف کردیا ہے۔

ذرائع کے مطابق انتظامیہ کی طرف سے اس سارے معاملے کو دبانے کی مذموم کوششیں کی گئیں، بجائے اس کے کہ متعلقہ تھانے میں اس بارے میں ایف آئی آر کٹوائی جاتی یونیورسٹی اس کوشش میں رہی کہ سارے معاملے کا خاموشی سے لپیٹ دیا جائے۔

اس ضمن میں قانونی ماہرین کا کہنا ہے یونیورسٹی انتظامیہ کو اپنی حدود میں پیش آنے والے اس واقعے پر ایف آئی آر درج کرانا چاہیے تھی نہ کہ معاملے کو دبایا جاتا، انتظامیہ نے مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعہ میں ملوث ملزم ابراھیم ہاسٹل انتظامیہ کے گریڈ 16 کے ملازم یوسف کا سگا بھائی ہے اور وہ خود ہاسٹل میں غیر قانونی طور پر مقیم تھا، یوسف گریڈ 16 کا ملازم ہونے کے باوجود ہاسٹل میں آر ایچ ٹی کے طور پر تعینات تھا، یوسف پورے ہاسٹل کے نگران کے طور پر ابرار انور کو رپورٹ کرتا ہے، اسی یوسف نےاپنے بھائی ابراھیم اور اس کے دوستوں کو غیر قانونی طور پر ہاسٹل میں گھسا رکھا ہے۔

یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے اسلامی یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں باہر سے آنے والے غیر قانونی عناصر کی رہائش اور آمد و رفت سے سیکیورٹی کے کردار پر بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھتا ہے۔

اس سے قبل یونیورسٹی کے وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر نبی بخش جمانی کی مبینہ سیکس ویڈیوز ایک عرصے سے منظر عام پر آ چکی ہیں۔ اس اسکینڈل کے بارے میں اکیڈیمک اسٹاف ایسوسی ایشن کے سابق صدر ڈاکٹر ظفر اقبال نے باضابطہ طور پر یونیورسٹی کے صدر اور ریکٹر کو خطوط ارسال کیے۔ یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر محمد مشتاق بھی یہ معاملہ اعلی حکام کے علم میں خط کے ذریعے لائے۔

ڈاکٹر جمانی کی مبینہ سیکس ویڈیوز کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کی سب کمیٹی کے سامنے بھی بات کی گئی مگر یونیورسٹی کے صدر اور ریکٹر اس بارے میں مکمل طور پر خاموش ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں