اسامہ بن لادن سے متعلق سوال پر شاہ محمود قریشی خاموش ہوگئے

اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ افغانستان میں امن اور سلامتی نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کی بھی خواہش ہے۔ اُن کے بقول ایک مستحکم اور پرامن افغانستان دیگر ممالک تک رسائی کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے۔

افغان ٹی وی چینل ‘طلوع نیوز’ کو دیے گئے انٹرویو میں شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دنیا کی افغانستان سے متعلق پالیسی اب تبدیل ہو رہی ہے۔

اُن کے بقول پاکستان عرصۂ دراز سے کہتا رہا ہے کہ جنگ افغان تنازع کا حل نہیں ہے۔ لہٰذا اب دنیا کو بھی یہ ادراک ہو گیا ہے کہ صرف سیاسی تصفیہ ہی دیرپا امن کا ضامن ہے۔

‘بین الافغان مذاکرات ہی افغان تنازع کا واحد حل ہے’

طالبان کی حکومت میں شمولیت اور اُن کے ممکنہ سیاسی کردار سے متعلق پوچھے گئے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ افغان عوام کو کرنا ہے کہ وہ کسے اپنا حکمران منتخب کرتے ہیں۔

اُن کا کہنا تھا “پاکستان تمام افغان دھڑوں سے یہی کہتا رہا ہے کہ وہ مل بیٹھ کر یہ طے کریں کے وہ کون سا سیاسی نظام اور آئین چاہتے ہیں۔ ہمارا مشورہ یہی رہا ہے کہ جو کچھ بھی طے ہو اس پر سب کا اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔”​

شاہ محمود قریشی کے مطابق پاکستان اسی افغان حکومت کے ساتھ روابط رکھے گا جو افغان عوام کی نمائندہ ہو گی۔

‘پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے’

پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی اسٹرٹیجک معاہدے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان افغانستان، پاکستان ایکشن پلان فار سولیڈیریٹی (اے پی اے پی ایس) کے نام سے ایک طریقۂ کار موجود ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں احساس ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایسے معاملات ہوتے رہتے ہیں جنہیں فوری حل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لہٰذا ہمارے درمیان ایک منظم ادارہ جاتی نظام ہونا چاہیے۔ تاکہ جب بھی کوئی معاملہ حل طلب ہو تو ہم بیٹھ کر اس پر بات کر سکیں۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے خلوصِ نیت سے افغان امن عمل میں اپنا کردار ادار کیا۔ لیکن اب بھی افغانستان میں کچھ حلقے ہیں جو پاکستان کی نیت پر شک کرتے ہیں۔

خیال رہے کہ افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے پر دہشت گردوں کی سرپرستی کے الزامات عائد کرتے رہے ہیں۔

حال ہی میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اس وقت سرد مہری دیکھی گئی تھی جب افغان مشیر برائے قومی سلامتی حمد اللہ محب نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ افغان طالبان کے رہنما مذاکرات کے لیے پاکستان آتے رہتے ہیں۔ لہٰذا پاکستان بھی نیک نیتی سے امن عمل میں سہولت کاری کر رہا ہے۔

‘عمران خان کا اُسامہ سے متعلق بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا’

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کی جانب سے اُسامہ بن لادن کو شہید قرار دیے جانے کے بیان پر پوچھے گئے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ میڈیا کے بعض حلقوں نے یہ بیان سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا۔

جب شاہ محمود قریشی سے یہ پوچھا گیا کہ کیا آپ اُسامہ بن لادن کو شہید سمجھتے ہیں؟ تو شاہ محمود قریشی کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دیں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس جون میں قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے عمران خان نے کہا تھا کہ امریکہ نے ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کو مار دیا، شہید کر دیا جس کے بعد پوری دنیا نے ہم پر الزام تراشیاں شروع کر دیں۔

یہ تقریر پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں براہ راست نشر کی جا رہی تھی جس کے فوری بعد اس پر ردعمل آنا شروع ہو گیا تھا۔

مئی 2011 میں امریکی فوج نے اسامہ بن لادن کو پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں ہلاک کیا تھا جہاں وہ ایک بڑے کمپاؤنڈ میں مقیم تھے۔

‘امریکی فوج کو ایک نہ ایک دن افغانستان سے جانا ہی تھا’

امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا سے متعلق پوچھے گئے سوال پر شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ امریکہ یہ سمجھتا ہے کہ 20 سال سے جاری جنگ کے دوران اس نے مطلوبہ اہداف حاصل کر لیے ہیں۔

اُن کے بقول امریکی حکام یہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے افغانستان میں دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب وہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے لیے خطرہ نہیں رہے۔

شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ اگر امریکی یہ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں اپنے اہداف حاصل ہو گئے ہیں تو وہ یہاں ہمیشہ تو نہیں رہیں گے۔ اُنہیں واپس تو جانا ہی تھا۔

خیال رہے کہ امریکہ نے رواں برس 11 ستمبر تک افغانستان سے اپنی فوج کا انخلا مکمل کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔

اس خبر میں شامل بعض معلومات افغان ٹی وی ‘طلوع نیوز’ سے لی گئی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں